The aim of this magazine is to connect the communities of Hindu Kush, Himalaya, Karakorum and Pamir by providing them a common accessible platform for production and dissemination of knowledge.
پریوں کے تعاقب میں؛ داردستان واقعی پریستان ہے! حصّہ دوم
۔۔اخری حصّہ؛ گزشتہ سے پیوستہ
جولائی 2020ء کے اخری عشرے میں مجھے سوات کے علاقے ”توروال” کے ایک مسحورکن وادی میں گھومنے پھرنے کا موقع ملا جب آفتاب بھائی اور زبیر توروالی صاحب نے بیلہ ڈھان سے ہوتے ہوئے گیدر جھیل، گیل کمل پاس) کیدام پاس( اور سر پناقال جھیل دیکھنے کا پروگرام بنایا تو میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ ہم پانچ بندے تھے۔ زبیر توروالی، آفتاب احمد انجیل، نور رحمان توروالی، معروف شکاری عبد المالک اور راقم۔
مذکورہ دوست بحرین سوات میں ایک تحقیقی و ترقیاتی ادارے، ادارہ برائے تعلیم و ترقی سے ٹیم کی صورت میں منسلک ہیں اور پورے شمالی پاکستان میں بستی پسی ہوئی اقوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس سفر میں شریک ہمارے ساتھی عبد المالک کا تعلق دش خیل قبیلے سے ہے جسے آکھار خیل بھی کہا جاتا ہے۔ صدیوں پہلے ان کے ابا و اجداد دیر کوہستان سے سوات کوہستان آئے تھے۔ عبد المالک ابھی توروالی زبان بولتے اور سمجھتے ہیں اور پوری طرح ماں کی جانب سے توروالی بن گئے ہیں۔ ان کو اپنی آبائی زبان جسے دݜوا کہا جاتا تھا اور جو کہ گاؤری زبان کا ایک لہجہ تھا، بھول گئے ہیں۔ دݜوا زبان بولنے والے سوات دروش خیلہ سے دیر کوہستان آئے تھے اس لئے ان کے زبان کو دشوا کہا جاتا ہے اور انہیں دش خیل۔ دش خیل دیر کوہستان کے گاؤری النسل قبائل کا ایک بڑا قبیلہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس قبیلے کے اکثر لوگوں نے دیر کوہستان میں مادری زبان دݜوا گاؤری چھوڑ کر پشتو زبان اپنائی ہے۔ جس کے وجہ سے انکی نئی نسل اپنے آپ کو پشتون کہتی ہے۔ دݜوا بولنے والے دروش خیلہ سوات سے دیر کوہستان کے گاؤں راجکوٹ جسے پشتو میں پاتراک کہتے ہیں آئے اور بعد میں پھر یہاں سے اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ آج کل ان کی غالب آبادی راجکوٹ، شرینگل، شہور، صدیق بانڈہ، معراج پٹی اور ہیاگے میں آباد ہے جبکہ سوات کوہستان میں یہ لوگ کالام اور توروال کے علاقوں منتشر ہوئے ہیں۔
ہم لوگ صبح سویرے بحرین بازار سے بیلہ ڈھان/ کنڈول جھیل کے لئے نکلے۔ بحرین سوات کوہستان کا صدر مقام اور توروالی زبان بولنے والے دارد النسل قبائل کا گڑھ ہے۔ ماضی میں اسے درشش، بھؤنال اور برانیال کہا جاتا تھا۔ یہ ایک خوبصورت اور پر امن علاقہ ہے۔ یہاں دریائے درال دریائے سوات سے ملتا ہے تو اس کی خوبصورتی اور دریائے سوات اور درال دریا کے سنگم پر ہونے کے وجہ سے والی سوات نے اسے بحرین کا نام دیا اس لئے آج کل اسی نام سے معروف ہے۔
بحرین سے ایک جیپ نے ہمیں کالام پہنچایا۔ بحرین سے کالام تک ایک بہترین اور معیاری روڈ بنا ہوا ہے۔ کالام میں ہم لوگوں نے ناشتہ کیا اور اتروٹ کی طرف بڑھنے لگے۔ کالام سے آگے اتروٹ کا روڈ کچا ہے جس پر چلتے ہوئے بدن کے جوڑ جوڑ ہل جاتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ تین سال پہلے میں یہاں آیا تو اس وقت بھی اس روڈ کی یہی حالت تھی اور آج بھی وہی حالت ہے۔ تین سالوں میں یہاں تھوڑا بہت کام تو کیا جاسکتا تھا۔ یہ کوئی عام روٹ تو نہیں ہے بلکہ شمالی پاکستان کے کئی خوبصورت ترین علاقے یہاں واقع ہے۔ اسی روڈ پر آگے جا کر باڈگوئی پاس آتا ہے۔ باڈ گوئی پاس جسے ہمارے توروالی بھائی سُوجُون کہتے ہیں سوات کوہستان کو دیر کوہستان سے ملانے والا ایک قدیم پاس ہے۔ اس پاس کو ہمارے بزرگ صدیوں سے استعمال کرتے ہیں۔ کالام کوہستان میں رہنے والے دارد النسل گاؤری قبیلے کا جد امجد کھیس صدیوں پہلے اسی راستے سوات کالام آیا تھا اور یہی اباد ہوا تھا جس کی نسل آج کالام، اتروٹ اور مٹلتان میں رہتی ہے۔ باڈگوئی پاس ایک خوبصورت اور دلنشین جگہ ہے لیکن یہ چونکہ پہاڑی علاقہ ہے اس لئے فور بائی فور گاڑی ہی جا سکتی ہے اور صرف گرمیوں میں قابل استعمال ہے۔ سردیوں میں شیدید برفباری کی وجہ سے یہ راستہ بند رہتا ہے۔ اس پاس کے ذریعے آپ سوات کے خوبصورت علاقوں مدین، بحرین، کالام اور اتروٹ سے ہوتے ہوئے کمراٹ جا سکتے ہیں۔ اگر باڈگوئی پاس پر ایک پکا اور معیاری روڈ بنایا گیا تو یقین کیجئے باہر کی دنیا کو ایک خوبصورت اور جادوئی دنیا دیکھنے کا موقع اسانی سے مل جائے گا۔ پھر باہر کے سیاح دوست ایک ٹرپ میں مدین، بحرین، کالام اور اتروٹ وغیرہ کے ساتھ کمراٹ اور جاز بانڈہ بھی دیکھ سکیں گے۔
بحرین سے کالام اور پھر آگے اتروٹ تک راستے میں بہت دلکش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نیچے شور مچاتا ہوا دریائے سوات اور اس پاس گھنا دیودار کا جنگل جس میں کہیں کہیں بلندی سے گرنے والے ابشار کسی پر بھی جادو کر سکتا ہے۔
اتروٹ بازار سے ہم لوگوں نے بیلہ ڈھان یا کنڈول جھیل کی طرف جانا شروع کیا۔ یہ جیپ کا راستہ ہے اس لئے یہاں آنے والوں کے پاس جیب وغیرہ ہونا ضروری ہے عام کار وغیرہ یہاں نہیں جا سکتی۔ اتروٹ سے بیلہ ڈھان تک جو روڈ ہے وہ اگرچہ کچا ہے لیکن پھر بھی بہتر ہے سوائے آخری چڑھائی کے۔ اس آخری چڑھائی کو کراس کرنے کے بعد بیلہ ڈھان آتا ہے۔ بحرین سے بیلہ ڈھان یا کنڈول جھیل تک تقریبا پانچ چھ گھنٹوں کا راستہ ہے۔ بیلہ ڈھان پہنچتے ہی بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ جگہ چونکہ سطح سمندر سے کافی بلند ہے اس لئے یہاں درخت وغیرہ نہیں ہے سوائے بڑِے بڑے چٹیل پھتروں کے۔ بارش سے بچنے کے لئے ہم نے ان پتھروں کے نیچے پناہ لی اور وہی دو پہر کا کھانا بھی کھایا۔ بارش تھوڑی دیر برسنے کے بعد رک گئی تو ہمیں جھیل دیکھنے کا موقع ملا۔ بیلہ ڈھان جسے آج کل کنڈول جھیل بھی کہا جاتا ہے ایک خوبصورت اور دلنشین جھیل ہے۔ سطح سمندر سے تقریبا 10 ہزار فٹ بلند بیلہ ڈھان ایک دلکش اور سحر انگیز جھیل ہے۔ جھیل کی دونوں طرف بلند و بالا برف پوش پہاڑ ایستادہ ہیں جبکہ پیچھے کی طرف وادی اتروٹ جہاں سے ہم آئے تھے اور اگے وادی میں بیلہ بان، میدان بان اور سیرو بان واقع ہیں۔ جھیل کے کنارے اگرچہ سبزہ نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے چٹیل پتھر پڑے ہیں لیکن ان پتھروں نے اس جھیل کے حسن میں چار چاند لگائے ہیں۔ بلند برف پوش پہاڑوں کے درمیان لمبی سی نیلی رنگ کی جھیل جس کے کنارے بڑے بڑے پتھر پڑے ہیں یہ سب اتنا حسین منظر پیش کرتے ہیں کہ انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔ جھیل کے قریب رہنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے جو لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں اور رات گزارنے کے لئے سامان وغیرہ ضرور ساتھ لائیں۔ جھیل کے کنارے کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم نے آگے بیلہ بان کی طرف جانا شروع کیا۔ ہمارا اصل امتحان اب شروع ہوا۔ کنڈول سے بیلہ بان تک تقریبا دو گھنٹوں کا پیدل ٹریک ہے۔ راستہ سیدھا اور ہموار ہے۔ ہم لوگ تقریبا دو گھنٹوں کے مسلسل چلنے کے بعد بیلہ بان پہنچے۔ یہ ایک خوبصورت دنیا ہے۔ چاروں طرف برف پوش پہاڑ اور درمیان میں سرسبز میدان جس کے کنارے پر بڑے بڑے گلیشرز پڑے ہیں۔ اس سرسبز اور خوبصورت چراگاہ میں بکروال لوگ رہتے ہیں جو مقامی توروالیوں کو قلنگ دیتے ہیں۔ قلنگ وہ مخصوص ٹیکس ہے جو بکروال اور پشتون ان سرسبز میدانوں میں اپنے مال مویشی پالنے کے بدلے مقامی دارد النسل لوگوں کو ادا کرتے ہیں۔ قلنگ نقد روپے کی شکل میں بھی وصول کیا جاتا ہے اور مال مویشیوں کی شکل میں بھی۔

یہاں ہم لوگوں نے تھوڑی دیر ارام کیا۔ بکروال بچّوں نے ہمیں پانی اور چائے پلائی۔ تاذہ دم ہوکر ہم اگے آگے بڑھ گئے۔ بیلہ بان سے دو گھنٹوں کے چلنے کے بعد ہم لوگ میدان نام کے ایک وسیع و عریض سبزہ زار پہنچ گئے جس کے بیچ نیلگوں پانی کی ایک نہر بل کھاتی ہوئی بہتی ہے۔میدان کا شمار توروال کے خوبصورت علاقوں میں ہوتا۔میں نے اپنے پوری زندگی میں گہرے سبز رنگ کا اتنا بڑا میدان کبھی نہیں دیکھا۔ میدان بان کے سرسبز میدانوں کے گھاس اتنی نرم و ملائم تھی کہ جوتے پہن کر اس پر چلنا قدرت کے اس حسین شاہکار کی توہین محسوس ہوئی اس لئے مجھے جوتے اتار کر ننگے پاؤں چلنا پڑا۔ ایک سرسبز وسیع کارپٹ جس پر چلتے ہوئے عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔

یوں لگتا تھے جیسے ہم کسی فلمی سیٹ پر چل رہے ہو۔ میدان کے اس سحر انگیز دنیا کو دیکھ کر ایک خیال آیا کہ کاش مشہور زمانہ ٹی وی سیریز Games Of Thrones کے کرتا دھرتا David benioff اور D.B WEISS مجھے مل جائیں تو میں انہیں کان سے پکڑ کر دیکھا سکوں کہ آپ کی بنائی ہوئی مصنوعی دنیا سے بھی میرا داردستان خوبصورت ہے۔

لگتا یہی ہے کہ ایسی حسین دنیا کو دیکھ کر ہمارے آباواجداد نے تخیّل میں پریوں کو دیکھا ہوگا اس لیے ایسی جگہوں سے پریوں کی کہانیاں منلسک ہیں۔
میدان سے آگے کھری نام کا ایک خوبصورت مقام آتا ہے۔ کھری سے آگے تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے مسلسل چلنے کے بعد ہم سیرو بان پہنچ گئے۔

سیرو ایک خوبصورت اور پر فضا جگہ ہے۔ خاص سیرو بان سے نیچے ایک چھوٹی سی جھیل۔ یہ جھیل اگرچہ ہے چھوٹی لیکن اتنی خوبصورت ہے کہ آگے جانے کو دل نہیں کرتا۔ ایک خوبصورت سی لمبوتری جھیل جس کا پانی نیچے آکر ایک خوبصورت تالاب کو جنم دیتت ہے۔ اس تالاب کے کنارے اتنے نرم و ملائم گھاس تھی کی میں بے اختیار ہوکر وہی لیٹ گیا۔میں دیر کے خوبصورت پہاڑوں میں بہت گھوما پھرا ہوں لیکن سیرو ڈھان نام کے اس جھیل اور تالاب جیسے خوبصورت جگہ کہیں اور نہیں دیکھی۔

گہرے نیلی رنگ کا تالاب اور درمیان میں چھوٹے چھوٹے جنگلی پھول جسے دیکھ کر یہاں سے اگے جانے کو دل نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کبھی ہمارے کمراٹ کے علاقے نبل کے میدان ہوتے تھے۔ نبل کے میدان بھی اسی طرح خوبصورت تھے۔ اس کے کنارے پر بھی اسی طرح رنگ برنگ پھول ہوا کرتے تھے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کمراٹ ہمارا ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کمراٹ میں امن و سکون کا راج تھا اور باہر سےکم لوگ یہاں آتے تھے۔ صرف نبل نہیں کمراٹ کے علاقے سری مئی سے آگے اس پورے علاقے میں اس وقت جنگلی پھولوں کی بہتات تھی۔ مجھے نہیں معلوم لیکن پتہ نہیں ہم آج انسانوں میں ایسا کیا ہے کہ بھی ہم آج کے جہاں انسان پہنچ جاتے ہیں وہاں سے قدرتی حسن اور رعنائی عنقا ہوجاتی ہے۔ نبل سے آگے دوجنگا کے قریب گھمان شاٹ کے آس پاس ایک وقت میں جنگلی پھولوں کا جنگل ہوا کرتا تھا جس کا آج نام ونشان بھی نہیں ملتا۔

سیرو ڈھان سے اگر چہ آگے جانے کو دل نہیں کرتا تھا لیکن ہمیں جانا تھا اس لئے آگے بڑھنے لگے۔ سیرو بان کے اس علاقے میں لکڑی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔انتہائی اونچائی پر ہونے کے وجہ سے یہاں جنگل نہیں ہے البتہ جنگلی جھاڑیاں جگہ جگہ ہیں۔ سیرو بان کے جس ڈیکیر/جھونپڑی میں ہم نے رات گزاری اس کے چھت پر جھاڑیاں اور گھاس پھوس ڈالے تھے۔ یہ جھونپڑی نما گھر/ ڈیکیر بڑِے بڑے پتھروں کے اوٹ میں بنائی گئی ہے۔ چھت پر عام طور جھاڑیاں ڈال کر کام چلاتے ہیں ہماری طرح لکڑی کے بڑے بڑے شہتیر نہیں ہوتے۔

یہاں بخت شیر اور محمد اسلام بکروال بھائیوں کے پاس ہم نے رات گزاری۔ ہم چونکہ یہاں کے مقامی لوگ تھے اور ہمارے دو ساتھی افتاب احمد اور نور رحمان توروالی اس راستے سے اکثر ہوکر جاتے ہیں تو انہیں سب معلوم تھا۔ بخت شیر اور محمد اسلام کی جھونپڑی میں ہم نے ڈیرہ ڈال دیا۔ رات کا کھانا وہی کھایا جو بکری کے دودھ پر مشتمل تھا۔ رات وہی گزارنے کے بعد اگلی صبح سویرے دیسی گھی میں بنائے گئے گرما گرم پراٹھے کھانے کے بعد ہم نے آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں سے ہم نے گیدر جھیل اور پھر گیل کمل پاس سے ہوئے ہوئے سر پناقال جھیل جانا تھا۔سیرو سے گیل کمل پاس تک یہ راستہ اس پورے ٹریک کا سب سے مشکل اور کھٹن ٹریک تھا۔ سیرو بان سے نکل کر آگے ایک چھوٹی سی ندی نے ہمارا راستہ روکا۔ آس پاس کوئی پل نہیں تھا اس لئے مجبورا ہمیں ندی میں اترنا پڑا۔ دیکھنے میں یہ گہرے نیلے رنگ کی عام سی ندی تھی لیکن پانی میں اتر کر معلوم ہوا اس عام سی ندی میں دریائے سوات سے زیادہ طاقت اور سختی ہے۔ ندی میں اترنے سے پہلے میں نے احتیاطا بخت شیر کا ہاتھ پکڑا تھا کیونکہ میرا اندازہ کے کہ اتنے بلندی اور بڑے بڑے گلیشئرز کے قریب بہنی والی ندی کا پانی انتہائی تھنڈا ہوگا اور وہی ہوا۔ جیسے ہی میں نے ندی میں پاؤں رکھا سرد یخ کنگل پانی نے دیوار چین بن کر آگے بڑھنے سے روکنا چاہا لیکن ہم بھی بقول شاعر
کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈنتے ہیں۔

سیرو بان سے گیدر جھیل تک ایک ڈھلوان نما پہاڑی پر چڑھ کر جانا ہوگا۔ دو ڈھائی گھنٹوں کے اس پیدل ٹریک پر آپ کو سیدھا اوپر چڑھنا ہوگا۔اوپر چڑھنے کےبعد جو پہلی آواذ سننے کو ملتی ہے وہ پانی کا شور ہے۔ یہاں گیدر جھیل کا پانی بڑے بڑے پھتروں سے ٹکراکر نیچے سیرو بان کی طرف بہتا ہے۔ یوں ہم گیدر جھیل پہنچ گئے۔ یہ ایک خوبصورت سحر انگیز جھیل ہے۔ اس جھیل کے دائیں بائیں برف پوش پہاڑ ہیں۔ سامنے گیل/ کمل پاس کا راستہ ہے اور پیچھے سیرو بان جہاں سے ہم ہوکر آئے تھے۔ سطح سمندر سے 1300 ہزار فٹ بلند گیدر جھیل کا شمار سوات کے گمنام جھیلوں میں ہوتا ہے۔

جھیل کا پانی گہرا نیلا نظر آتا ہے جس میں گیدر گلیشئرز اور آس پاس موجود برفپوش پہاڑوں کا عکس انسان کو مبہوت کر دیتا ہے۔ سیرو بان سے گیدر جھیل تک اس راستے نے ہمیں بہت تھکا دیا تھا اس لئے اس پرسکون اور گمنام جھیل کے کنارے ہم نے تھوڑی دیر تک آرام کیا۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ اب ہمیں مشہور گیدر گلیشئرز سے ہوتے ہوئے کیدام پاس کراس کرنا تھا۔

اس پورے ٹریک کے دوران سیرو بان سے لے کر کمل پاس تک کا راستہ سب سے مشکل راستہ ہے کیونکہ یہاں آپ نے نیچے سے اوپر کیدام پاس تک اوپر پتھریلی راستے اور گلیشیر پر اوپر چڑھنا ہوتا ہے۔ گرتے پھسلتے آخر کار ہم لوگ گیل کمل پاس پہنچ گئے۔ گیل کمل پاس جسے آج کل کیدام پاس بھی کہا جاتا سیرو بان، بیلہ بان اور میدان بان کو سر پناقال،کاڑ بان اور پُشُو بیلہ کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس پاس سے یہاں آنے والے مقامی چرواہیں استعمال کرتے ہیں۔ اسی پاس سے ہوکر آپ کیدام بحرین آ سکتے ہیں۔ گیل کمل پاس ایک خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں پیچھے دیکھنے پر دور گیدر جھیل کسی پیالے کی طرح نظر آتا ہے اور سامنے نیچے دیکھنے پر سرپنا قال کی جادوئی نیلی جھیل نظر آتی ہے۔ پاس سے سیدھے ہاتھ پر اوپر ایک گمنام جھیل کنڈورا جھیل واقع ہے جسے بہت کم لوگوں نے دیکھا ہے۔الٹے ہاتھ پر شیطان گُوٹ کی تین جادوئی جھیلیں واقع ہیں۔ اگر ہم ہندوکش کی شاخ ہندوراج کو جھیلوں کی دنیا کہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ان برف پوش پہاڑوں کے دامن میں اتنے جھیلیں ہیں کہ اتنے پورے شمال میں نہ ہوں گے۔ کٹورہ جھیل یا گھان سر، شندور جھیل، شڑ ویلی کے پانچ گمنام جھیلیں، کنڈول جھیل، گیدر جھیل، کنڈورا جھیل، سر پناہ قال جھیل، شیطان گوٹ کی تین گمنام جھیلیں، درال جھیل، سیدگئی جھیل اور شندور جھیل العرض ہندوراج کے اس علاقے میں آس پاس بیسوں جھیلیں ہیں جس کے بارے میں باہر کے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ کیدام/ کمل پاس سے جب ہم نے نیچے سر پناہ قال جھیل کے طرف دیکھا تو نیلے پانی کی ایک خوبصورت جھیل نظر آرہی تھی۔ اس دوران پتہ نہیں کہاں سے بادل رقیب روسیا بن کر نمودار ہوئے جس کے وجہ سے کبھی سر پناہ قال جھیل نظر آتی تھی اور کبھی بادلوں میں چُھپ جاتی۔ بادلوں کی یہ آنکھ مچولی اگرچہ میرے ساتھیوں کو اچھی نہیں لگی کیونکہ بقول آفتاب بھائی بادل رقیب بن کر آس پاس موجود برف پوش پہاڑوں اور جھیلوں کو چھپا کر اوجھل کرتے ہیں لیکن ہمیں اس قسم کے بادل بہت اچھے لگتے ہیں۔

کمل پاس سے سر پناہ قال تک اترتے ہوئے ہمیں ایک گھنٹے کا وقت لگا۔ نیچے اترتے ہوئے میں اتنا تھک گیا تھا کہ چاہتے ہوئے بھی میں جھیل کی طرف نہ جا سکا بس بخت جمال کاکا کے گھر کے سامنے بڑے سے پتھر پر لیٹ گیا۔ ہم سے پہلے زبیرتوروالی، عبد لمالک اور نو رحمان توروالی اس پھتر پر قبضہ جما چکے تھے اس لئے جیسے ہی میں اور افتاب بھائی پہنچ گئے تو ہم بھی ڈھیر ہوگئے۔ کچھ دیر ارام کرنے کے بعد ہم نے اسی پھتر کے اوپر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ کھانے میں مقامی چراہ گاہوں میں دودھ سے بنی چیزیں دودھ، دہی، متر، ݜیان، دیسی گھی اور مکھن شامل تھا۔ کھانا کھانے اور کچھ دیر سستانے کے بعد جب میں نے ادھر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ جس پھتر پر ہم بیٹھے تھے اس کے سامنے نیچے سرپناہ قال جھیل سے نکلنی والی ندی شور مچاتی جھاگ اڑاتی نیچے کیدام بحرین کے طرف بہہ رہی تھی۔ پیچھے سر پناہ قال کی جھیل نظر آرہی تھی جس کے اوپر بادل تیر رہے تھے۔

کچھ پہاڑی چھاچھ اور متر کا خمار تھا، کچھ جگہ خوبصورت اور کچھ بادل سائباں بن کر آگئے تو میں پوری طرح اس منظر میں کھو گیا۔ بادل جب ہمارے انکھوں سے دو فٹ فاصلے پر تیرتے ہوئے جھیل کی طرف بڑھتے تھے تو ایک عجیب سا احساس ہوتا تھا۔ بچپن میں جب ہم اس طرح بادلوں میں پھنس جاتے تھے تو ہم ہاتھ بڑا کر بادلوں کومٹھی میں پکڑنے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ بادل بادل نہیں ہے جو کسی کے ہاتھ آئے۔

میں تقریبا دو گھنٹوں تک بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا رہا پھر ہم لوگوں نے جھیل کے کنارے جانے کا فیصلہ کیا۔ دور سے یہ جھیل جتنی چھوٹی نظر آتی ہے قریب سے دیکھنے کے بعد یہ غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ چاروں طرف برفپوش پہاڑ اور درمیان میں گہرے نیلے رنگ کی ایک بڑی جھیل جس کے چاروں کناروں پر وسیع و عریض سرسبز میدان ہے یہ بلا شک و شبہ ہندوراج کے خوبصورت جھیلوں میں سے ایک جھیل ہے۔ سطح سمندر سے تقریبا 12600 فٹ بلند سر پناہ قال جھیل کا شمار سوات کے گمنام لیکن خوبصورت جھیلوں میں ہوتا ہے۔ بیلا ڈھان، گیدر جھیل، کونڈل جھیل کمراٹ، گورشئی جھیل کمراٹ، گھان سر، لوک سر جاز بانال اور بٹاوار بریکوٹ کی گمنام جھیلوں سمیت میں نے کوہستان کے کئی خوبصورت اور دلنشین جھیلیں دیکھی ہے لیکن ان سب میں سر پناہ قال جھیل سب سے خوبصورت جھیل ہے۔ اس جھیل کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف سرسبز میدان ہے جس میں کہیں آبشار گرتے ہیں تو کہیں ندی نالے اور کناروں پر گلیشرز پڑے ہیں۔ یہ سب مل کر سر پناہ قال کی اس جھیل کو جادوئی جھیل بناتا ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک جتنا گھوما پھرا ہوں کہیں دوبارہ جانے کی خواہش نہیں ہے لیکن سر پناہ قال ایک ایسی جگہ ہے جہاں دوبارہ جانے کی خواہش ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سر پناہ قال کی اس جھیل کےکنارے کیمپ لگا کر یہاں رہوں۔ یہاں کے بادوں، پہاڑوں اور ہواوں سے دوستی کرکے ان سے سبوس، زرنگار اور دانوس نام کی ان پریوں کا پوچھوں جن کا ذکر ہم نے بچپن میں اپنے گھروں میں سنا۔ جن کے بارے میں ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ یہ پریاں ہماری جھیلوں میں نہانے کے لیے کوہ قاف سے آتی تھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان پہاڑوں،بادلوں اور جھیلوں سے پوچھوں کہ یہاں ایسا کیا ہوا کہ ان پریوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا؟ اگر بزرگوں کی یہ پریاں سچ مچ وجود رکھتیں تو سر پناہ قال ضرور نہانے آتیں کیونکہ یہ جگہ ہی ایسی ہے کہ انسان کیا جنّات بھی اسے دیکھتے تو یہاں رہنے کی خواہش کرتے۔

سر پناہ قال کے اس ملکوتی حسن والی جھیل کے کنارے کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم سر بان واپس آئے۔ یہاں ہم نے صیب گل کاکا کے ہاں رات گزاری۔ صیب گل کاکا نے ہماری بہت خدمت کی۔ شمال کے ان برف پوش پہاڑوں کے دامن میں آباد داردلنسل لوگ دودھ سے کئی ایسی چیزیں بناتے ہیں جن کے بارے میں دنیا بالکل بھی نہیں جانتی۔ ان چیزوں میں متر میرا سب سے پنسدیدہ ڈش ہے۔ متر کھانے کے بعد اگر آپ نے گوس/چھاچھ پی تو مدہوش ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

اس سفر کے دوران نہ صرف ہم نے خوبصورت پہاڑ، جھیلیں، ابشار اور میدان دیکھے بلکہ مجھے بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کو ملا۔ ہم چونکہ بنیادی طور پر ایک بند سماج میں رہتے ہیں جہاں پر خود سے سوچنا اور سوال اٹھانا منع ہے۔ اس قسم کے کسی عمل کو یہاں کفر یا غدّاری کہا جاتا ہے اس لئے کھوجنے اور سوال کرنے والوں کو زیادہ پڑھا لکھا پاگل،کمیونسٹ اور غداری کے فتوی لگا کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسے میں کون کمبخت سوال اٹھا سکتا ہے۔لیکن تحقیق اور جستجو چونکہ ایک شعوری عمل ہوتا ہے، اس پر فل سٹاپ لگاکر بند نہیں کیا جا سکتا اور نہ آج کا دور صرف قصے کہانیوں کا ہے۔ آج کا دور حقائق پر مبنی واضح سچائیوں کا دور ہے۔ اس سفر کے دوران چونکہ زبیر تورولی بھی ہمارے ساتھ تھے تو میں نے بھی اس موقع سے پورا فائدہ اٹھانا چاہا۔ بیلا ڈھان سے کر لے کر بحرین کیدام تک اس پورے راستے میں میں نے زبیر توروالی سے بہت کچھ پوچھا۔ بہت سارے ایسے سوال ذہن میں کھلبلا رہے تھے جن کے جواب مجھے اس بندے سے مل سکتے تھے تو میں نے وہ سوال کئے۔ سماجیات، نسلیات، بشریات، تاریخ، لسانیات غرض ہر اس چیز کے بارے میں سوال داغا جس کے بارے میں مجھے جاننا تھا۔ سر بان میں رات کے وقت میں نے زبیر توروالی صاحب سے توروال کے ماضی کے بارے میں کوئی سوال کیا۔ زبیر صاحب تفصیل سے مجھے سمجھا رہے تھے اور میں بغور سننے کے ساتھ ساتھ اس وقت کی ایک خیالی تصویر بنانے میں مگن تھا۔ ایک طرف ہم نے رات کے کھانے میں ݜیان کھایا تھا اوپر سے خالص چھاچھ کا خمار اور ساتھ میں خوبصورت جنت جیسے علاقے کا اثر تو میں کھو سا گیا تھا کہ اچانک انہوں نے کہا تم ہاں تو کرو یار۔ تم ہاں تو کرو یار سنتے ہی میں خیالی دنیا سے چونک کر پلٹ آیا تو سب ہنسنے لگے۔ میرے سوالوں سے تنگ آکر نور رحمان بھائی نے پورے راستے میرا مذاق اڑیا لیکن مجھے جاننے کا شوق تھا اور ہے تو میں نے کھل کر سوال کیے۔ رات بھر ہسنی مذاق سوال و جواب چلتا رہا پھر ہم سو گئے۔

اگلے دن اٹھ کر ہم نے دیسی گھی میں بنے پراٹھوں سے ناشتہ کیا۔ صیب گل کاکا نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ خاص کر جب انہیں پتہ چلا کہ میرا تعلق دیر سے ہے تو انہوں نے ہماری ایسی مہمان نوازی کی کہ میں شرمندہ ہوا۔ مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جن کے نزدیک مہمان سچ مچ کا فرشتہ ہوتا ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں آباد ان دور دراز سرسبز چراگاہوں تک راشن پہنچانا ایک مشکل اور کھٹن کام ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے لوگ باہر سے آنے والوں کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں۔

ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں میں رہنے والے ان لوگوں کے دل اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ایک ساتھ اگر سو مہمان بھی آجائے تو پریشان نہیں ہوتے۔ خود بھوکے سو جائیں گے لیکن مہمان کے سامنے بہترین کھانا رکھ دیں گے۔ یقینا جتنا خوبصورت توروال ہے اس سے زیادہ توروالی مہمان نواز اور وسیع القلب لوگ ہیں۔

اگلے دن ایک بھر پور اور مزیدار ناشتے کے بعد ہم نے سر بان سے کاڑ بان کی طرف سفر شروع کیا۔کاڑ بان کے راستے پر کئی بڑے بڑے گلیشئرز ہیں۔ ان گلیشئرز میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے اوپر راستہ گزرتا ہے۔ ان گلیشئرز میں نیل ڈھان کا گلیشئر سب سے بڑا ہے۔ بقول آفتاب بھائی اس سال گلیشئرز زیادہ ہیں۔ مطلب اس سال گلیشئرز نہیں پگھلے جس کا مطلب موسموں کے اس نظام میں خلل پڑ گیا ہے جس کے وجہ سے گلیشئرز ابھی تک پڑے ہیں۔

2010 کے اس سیلاب نے نہ صرف دیر کوہستان کی شکل بگاڑی ہے بلکہ سوات کے حسن کو بھی اس نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ 2010 سے پہلے جو علاقے جنت نظیر ہوا کرتے تھے اب وہاں بڑے بڑے پھتر پڑے ہیں۔ نیل ڈھان سے نییچے بیسا مری کا علاقہ آتا ہے۔ بیسامری سے 10 منٹ کے فاصلے پر کیݜین اوس ہے۔ کیݜین اوس کا مطلب ایک چشمہ ہے جسے کالا چشمہ کہا جاتا ہے۔ کمراٹ کے کالا پانی کے طرح یہاں بھی پانی کا رنگ کالا نہیں ہے بلکہ کناروں پر بِڑے بڑے کالے پھتر پڑے ہیں جن کا رنگ کالا ہے جس کی وجہ سے اس چشمے کو کالا چشمہ کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کمراٹ کا کالا پانی ہے۔ وہاں بھی پانی کا رنگ کالا نہیں ہے بلکہ آس پاس پڑے پتھر کالے ہیں جس کے وجہ سے پانی کا رنگ بھی کالا نظر آتا ہے تو اسے کالا چشمہ کہا جاتا ہے اور اسی نام سے معروف ہے۔ کیشین اوس سے 10 منٹ کے فاصلے پر جبہ نام کا علاقہ آتا ہے۔ یہ ایک سرسبز اور خوبصورت چراگاہ ہے جہاں مقامی توروالی لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ جبہ بانال کے پیچھے ایک پہاڑی سے بہت بڑا ابشار گرتا ہے جسے کریڑیا ابشار کہا جاتا ہے۔ بلندی سے گرنے والے اس ابشار کو قریب سے دیکھنا ناممکن ہے کیونکہ یہ بلندی سے جہاں گرتا ہے وہاں چڑھنا ناممکن ہے۔ سر پناقال سے کریڑیا ابشار تک راستے میں پانچ بڑے اور چار چھوٹے ابشار گرتے ہیں۔ جھرنوں اور چشموں کی گنتی کرنا ناممکن ہے کیونکہ توروال کے اس علاقے میں پانی بہت زیادہ ہے۔ ہر دوسرے قدم پر زمین سے چشمے ابلتے ہیں، بلندی سے ابشار اور جھرنے گرتے ہیں۔ بلا شک و شبہ اس علاقے میں پانی کا کوئی مسلہ نہیں ہے۔ مہینوں پیدل گھومو پھرو پانی کی ضرورت نہیں پڑی گی کیونکہ پانی ہر دوسرے قدم پر ملتا ہے۔ جبہ بان سے نیچے 30 منٹ کے فاصلے پر ترکنا بان ہے۔ ترکنا بان میں بخت ذادہ کاکا ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہم لوگوں نے دو پہر کا کھانا ترکنا بان میں بخت ذادہ کاکا کے ہاں کھایا۔ کھانے میں وہی دودھ سے بنی چیزیں اور ساگ وغیرہ تھا۔ کھانا کھانے کے بعد چائے پی اور اپنے میزبان بخت ذادہ کاکا سے رخصت لے کر ہم نے کانڑ بان کے طرف بڑھنا شروع کیا۔ اب ہم بلندی سے نیچے آ رہے تھے اس لئے کانڑ بان میں درختوں کی بہتات ہے۔ یہاں ایک خاص قسم کا درخت پایا جاتا ہے جسے کانڑ کہتے ہیں تو اس وجہ سے اس علاقے کو بھی کانڑ کہا جاتا ہے۔ کانڑ سے 30 منٹ کے فاصلے پر سونی بیگ کے علاقے شروع ہوتے ہیں۔ سونی بیگ سے 20 منٹ کے فاصلے پر جبڑی نام کا علاقہ آتا ہے۔ جبڑی نام کی ایک چرا گاہ دیر کوہستان کے علاقے بریکوٹ میں بھی ہے۔ہمارے ان علاقوں میں اکثر جگہوں کے نام ایک جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دیسان سوات میں ہے تو دوسرا داسان کلکوٹ دیر کوہستان میں ہے۔ اسی طرح اگر ایک سورباٹ توروال میں ہے تو دوسرا براول دیر میں ہے۔ دیسان، جبڑی، کشور، سورباٹ، گورنال، ایربی یا ہیرپی اور کالام وغیرہ۔ ایک کالام سوات میں ہے تو دوسرا کالام نورستان میں ہے بلکہ وہاں نورستان میں دوکالام ایک دریا کا بھی نام ہے۔ شمال کے ان علاقوں میں ایک نام کئی جگہوں اور علاقوں کو دیے گئے ہیں۔

جبڑی سے آگے 30 منٹ کے بعد ایربی یا ہیرپی نام کا علاقہ آتا ہے۔ یہ بالکل جاز بانال کے ایربی کے طرح جگہ ہے۔ وہاں بھی درختوں کے درمیان اوپر ڈھلوان نما جگہ کو ایربی یا ہیرپی کا نام دیا گیا ہے اور یہاں بھی۔ وہاں دیر کوہستان میں بھی ایربی کی چڑھائی مشہور ہے اور یہاں توروال کوہستان میں بھی اس ایربی کی چڑھائی مشہور چڑھائی ہے۔ ہیرپی یا ایربیی سے نیچے ایک گنٹھہ پیدل مسافت پر پُل بیلہ نام کا علاقہ آتا ہے۔ وہ مقامی توروالی جن کے پاس مال مویشی ہوتے ہیں وہ سردیوں میں پُل بیلہ میں بھی رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں گھر بنے ہوئے ہیں اور ساتھ میں جنگل بھی ہے تو سردیوں میں مویشیوں کے لئے بہترین جگہ ہے۔ سر پناقال میں ہمارے میزبان بخت جمال کاکا ور صیب گل کاکا سردیوں میں پُل بیلہ آتے ہیں اور اپنے مال مویشیوں کو ادھر پالتے ہیں جبکہ گرمیوں میں بلند چراگاہوں کے طرف جاتے ہیں۔ پُل بیلہ سے نیچے 30 منٹ کے فاصلے پر جھامری کا علاقہ آتا ہے۔ جھامری سے 30 منٹ نیچے پیشیل کا علاقہ آتا ہے جہاں مٹی زیادہ تر گیلی ہوتی ہے جس کے وجہ سے اس علاقے کو پھشیل یعنی پھسلن والی جگہ کہتے ہیں۔ پیشیل میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے کیدام کے طرف بڑھنا شروع کیا۔ پھشیل سے تقریبا 20 تیس منٹ میں پیدل نیچے اترتے ہوئے ہم کمل پہنچ گے جو ہماری آخری منزل تھی۔ کمل کو آج کل کیدام بھی کہا جاتا ہے اور یہاں سے مین بحرین کالام روڈ گذرتا ہے۔

بیلہ ڈھان سے لے کر بیلہ، میدان، سیرو، گیدر جھیل، گیل کمل پاس، سر پناقال اور واپس کیدام تک یہ تقریبا 64 کلومیٹر کا پیدل ٹریک تھا جو ہم نے تین دنوں میں طے کیا۔ اس پورے ٹریک کے دوران ایک طرف اگر سوات توروال کے خوبصورت علاقے دیکھنے کو ملے تو دوسری طرف ہم نے اپنے ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ خاص کر زبیر توروالی سے گپ شپ میں بہت کچھ سیکھا۔ اس پورے ٹریک کے دوران مقامی توروالیوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ہماری خدمت کی۔ کھانا، بستر اور چھت ہمیں وہ سب کچھ اسانی سے ملا جسے ہمیں ضرورت تھی۔ سر پنا قال بان اور ترکنا بان میں مقامی توروالیوں نے جس طرح ہماری میزبانی کی، جس طرح ہمارا خیال رکھا وہ قابل ستائش ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ماضی کی طرح ہم داردیک اب بھی دنیا کے بہترین مہمان نواز ہیں۔ بیلا ڈھان سے لے کر سر پناقال اور پھر واپس کیدام تک اس ٹریک پر بلا شک و شبہ سوات کے خوبصورت ترین لیکن گمنام علاقے واقع ہیں۔

کیدام سے اگر سر پنا قال تک روڈ بن گیا جو کہ اسانی سے بن سکتا ہے کیونکہ راستے میں ایسا کوئی پہاڑ یا دوسری رکاوٹ نہیں ہے تو مجھے یقین ہے باہر کی دنیا کو ایک خوبصورت دنیا دیکھنے کو ملی گی۔ ہم شمالی پاکستان کے دار النسل لوگوں کے پاس اس دنیا کا خوبصورت علاقہ ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ان خوبصورت علاقوں کو دنیا سامنے لاکر اس کا صحیح استعمال کرکے فوائد حاصل کریں۔ صدیوں پہلے جب ہمارے بزرگوں کو زرخیز زمینوں سے بے دخل کرکے ان پہاروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا تھا تو اس وقت یہ علاقے کسی سرد جہنم سے کم نہیں تھے لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ سرد جہنم اب جنت میں تبدیل ہوگیا ہے۔ زرخیز زمینوں پر ماتم کرنا اپنی جگہ لیکن جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ زرخیز زمینوں سے بھی بڑھ کر کچھ ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں دادا نے کہا تھا فلاں جگہ خزانہ ہے۔ فلاں بزرگ نے کہا تھا کہ فلاں کھنڈر کے نیچے سونے و جواہرات پڑے ہوئے ہیں۔ خزانے کے لالچ میں ہم نے اپنے قدیم تاریخی ورثے کی اینٹ سے ایینٹ بجادی لیکن ہمیں خزانے نہیں ملے۔ یہ بات جھوٹ نہیں ہے کہ بزرگوں نے کہا تھا یہاں خزانے ہیں۔ یہاں خزانے ہیں بلکہ خزانوں سے بڑھ کر کچھ ہے لیکن ہمیں غلط فہمی ہوگئی تھی۔ بزرگ اپنی جگہ صحیح تھے لیکن ہم نا سمجھ تھے کھنڈر کھودتے رہیں۔ بزرگوں نے جس خزانے کے بارے میں کہا تھا وہ زمین کے نیچے نہیں آنکھوں کے سامنے زمین کے اوپر پڑے ہیں۔ یہ اونچے برف پوش پہاڑ، گھنے اور وسیع جنگل، سرسبز وسیع میدان، بلند چوٹیوں سے گرنے والے موسیقی بکھیرنے والے ابشار، زمین سے ابلتے ٹھنڈے میٹھے چشمے اور جنگلی جانوروں پرندوں کی چہچہاہٹ اس دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ یہ ایک ایسا خزانہ ہے اگر ہم اس کا صحیح استعمال کریں گے تو تا قیامت ختم نہیں ہوں گے۔ ابھی تک دنیا نے ہمارے کچھ مخصوص علاقوں کو دیکھا ہے شمال کے 95 فیصد علاقے ابھی تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔باپ دادا نے جن خزانوں کے بارے میں ہمیں بتایا تھا وہ زمین کے نیچے نہیں زمین کے اوپر ہمارے آنکھوں کے عین سامنے ہیں لیکن ہمیں نظر نہیں آتے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے لوگ اپنے اس خزانے کو صحیح طریقے سے استعمال کریں گے تو ہم اس دنیا کے سب سے امیر ترین لوگ بن سکتے ہیں۔ پھر ہم وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جن کا اب ہم صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم، پامیر اور ہندوکش کے بلند و بالا برف پہاڑوں کے درمیان واقع یہ سرسبز خزانے باپ دادا سے ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے صحیح استعمال کرکے اگلی نسل تک باپ دادا کی یہ وراثت جوں کہ توں منتقل کریں۔
ختم شد۔۔
اس مضمون کے پہلے حصّے کو اس لنک میں پڑھیں