The aim of this magazine is to connect the communities of Hindu Kush, Himalaya, Karakorum and Pamir by providing them a common accessible platform for production and dissemination of knowledge.
انجمن ترقی کھوارکی رُوداد
شہزادہ تنویرالملک
انجمن ترقی کھوار چترال کے اندر اور اس سے باہر کھوار لکھنے والوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس کا مرکزی دفتر چترال شہر میں ہے، جب کہ اس کے ذیلی حلقے چترال کے مختلف علاقوں کے علاوہ پشاو، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور گلگت-بلتستان کے غذراور اشکومن وغیرہ علاقوں میں بھی قائم ہیں۔
انجمن ترقی کھوارکا قیام اگست 1956ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے بنیادی محرک اُس وقت ریاست چترال کے صوبے دروش کے گورنر شہزادہ محمد حسام الملک تھے۔ ابتدا میں اس تنظیم کے لیے جو نام تجویز کیے گئے، ان میں “بزم کھوار” اور”انجمن ترقی چترال” شامل تھے۔ لیکن اس موقع پرموجود بعض علماء نے لفظ “بزم” کے بارے ناپسندیدگی ظاہر کی تھی، اس لیے اس کا نام “انجمن ترقی چترال” رکھا گیا اور شہزادہ محمد حسام الملک اس کے صدر مقرر کیے گیے۔ ۱۹۵۷ء میں اس تنظیم کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ اس انجمن کے بانی اراکین میں شہزادہ محمد حسام الملک، امیرشریف خان حاکمِ دروش، بابا ایوب چمرکن، میتارژاؤ رحمن دیارخان دنین، مولوی باچا خان ھما کیسو، مرزا فردوس فردوسی جغور، قاضی صاحب نظام آیون، لیفٹیننٹ مرزا غلام مرتضیٰ موڑدہ چترال، وزیرعلی شاہ زرگراندہ اور شہزادہ صمصام الملک شامل تھے۔ فروری 1957ء میں چترال پبلک لائیبریری میں شہزادہ محمد حسام الملک کی صدارت میں پہلا کھوار مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں کل سترہ شعراء نے کلام سنایا۔ یہ اس انجمن کی پہلی ادبی سرگرمی تھی۔
شہزادہ محمد حسام الملک انجمن ترقی کھوار کی تاریخ میں سب سے لمبے عرصے یعنی 1956ء تا 1988ء تک صدر رہے۔ اُن کے دور صدارت میں مرزا شیراحمد کابلی کا فارسی شاہنامہ چترال، کھوار کتاب “نمیژ” یعنی نماز اور قرآن شریف کے پہلے پار ے کا ترجمہ شائع ہوا۔ اس دوران شہزادہ صمصام الملک کی تصانیف “کھوارقاعدہ” اور ” کھوار گرائمر ” پشتو اکیڈمی پشاور کے تعاون سے شائع کی گئیں۔ شہزادہ محمد حسام الملک مرحوم کی کوششوں کے نتیجے میں 1965ءمیں ریڈیو پاکستان پشاورسے کھوار پروگرام شروع کیا گیا۔ 1967ء میں شہزادہ موصوف کی کوششوں سے سرکاری پشتورسالہ “جمہوراسلام” میں کھوار زبان کے لیے ایک حصہ مختص کیا گیا اوراقبال حیات اس رسالے کے کھوار سیکشن کے پہلے مدیر مقرر ہوئے۔ بعد میں ایک مکمل کھوار رسالے کی شکل میں جمہورِ اسلام کئی سال تک شائع ہوتا رہا۔
1977ء میں شہزادہ محمد حسام الملک کی وفات کے بعد 1978ء میں اس انجمن کی تنظیم نو کی گئی اوراس کا نام بدل کر “انجمن ترقی کھوار” رکھ دیا گیا۔ غلام عمرمرحوم اس انجمن کے صدراور ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی جنرل سیکرٹری مقررکیے گیے۔ نئی تنظیم کے بعد انجمن ترقی کھوار کی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ اس زمانے میں چترال اورکھوار زبان و اَدب سے متعلق کئی کتابیں منظرعام پرآئیں۔ ان میں غلام عمر کی تصانیف “باباسیئر” اور “چترال کی لوک کہانیاں”، وزیرعلی شاہ، پروفیسراسرارالدین اور ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی کی مشترکہ تصنیف “چترال ایک تعارف” قابل ذکرہیں۔ مذکورہ بالا ابتدائی دو کتابوں کو لوک ورثہ اسلام آباد کے تعاون سے شائع کیا گیا۔ اس دوران لوک ورثہ اسلام آباد نے انجمن ترقی کھوار کے تعاون سے چترال کے کلچراوراَدب کے پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی جو آج بھی بیحد مقبول ہے۔
1982ء میں غلام عمر کے انتقال کے بعد ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی انجمن ترقی کھوار کے صدر مقرر ہوئے۔ فیضی صاحب کے دور صدارت میں انجمن ترقی کھوار چترال کے طول وعرض میں متعارف ہوا اور اسکی علاقائی شاخیں قائم ہوئیں۔ اس دوران کئی بڑے مشاعرے اور سیمینار منعقد ہوئے۔ اس دور کی سب سے اہم کامیابی چترال میں دو دفعہ “انٹرنیشنل ہندوکش کلچرل کانفرنس” کے نام سے بین الاقوامی اجتماعات کا انعقاد ہے۔ یہ کانفرنسیں 1990 اور 1995ء میں منعقد ہوئیں۔ اس عرصے میں چترالی ادیبوں اورشاعروں کے مختلف وفود کو چترال سے باہراَدبی دوروں پرجانے کا موقع ملا۔ جس سے یہاں کے شعراء وادباء کو دوسری زبانوں کے لکھنے والوں سے روابط استوار کرنے اور تبادلہ خیال کے مواقع میسر آئے۔ اس زمانے میں انجمن ترقی کھوار اورانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے مابین روابط کے نتیجے میں چترالی اَدیبوں کو دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد میں مختلف ورکشاپ میں شرکت کے مواقع ملے۔ اس دوران کئی کتابیں شائع ہوئیں جن میں “پھوپھوکان کتاب”، “کھوارمتال”، “چترال ایک تعارف”، “خوانِ چترال”، “گلشنِ چترال” وغیرہ شامل ہیں۔
فیضی صاحب کے بعد دنین کے میتارژاؤ الحاج رحمن دیارخان مرحوم انجمن ترقی کھوار کے صدرمقرر ہوئے جو اس انجمن کے بانی اراکین میں سے تھے۔ رحمن دیارخان کے دورمیں بھی سیمینار، مشاعروں اورکتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔
رحمن دیارخان کی صدارت کی میعاد ختم ہونے پرچترال کے سینئرشاعراورفنکار گل نوازخاکی مرحوم ایک برس انجمن کے صدر رہے۔ پھر چترال کے بزرگ شاعر اور اَدیب جناب امیرخان میر انجمن ترقی کھوار کے مرکزی صدرمقررکیے گیے۔ ان کے دورمیں بھی سیمینار، مشاعرے اورکتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس عرصے میں چترال کے مختلف شعراء کے تعارف اورکلام کے نمونوں پرمشتمل کتاب “ققنوز” کی دو جلدیں شائع ہوئیں۔ اس دوران قیام پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے حوالے سے تین روزہ سیمینارمنعقد کیا گیا۔ بعد ازان اس سیمینارمیں پیش کیے گیے مقالہ جات کو “چترال اورالحاق پاکستان” کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس کے بعد صالح نظام صالح ایک برس کے لیے انجمن ترقی کھوار چترال کے صدرمقررکیے گیے۔ ان کے دورمیں بھی انجمن ترقی کھوارکی اَدبی سرگرمیاں حسبِ سابق جاری رہیں۔
صالح نظام کے بعد عبدالولی خان عابد انجمن کے صدرمقرر ہوئے۔ ان کے دور صدارت میں انجمن کی سرگرمیوں میں تیزی آئی اوراس عرصے میں بہت سے شعراء کی کلیات منظرعام پرآئیں جن، میں شہزادہ عزیزالرحمن بیغش کا “گداز”، امیرگل امیر کا “گل گمبوری”، عنایت اللہ چشتی صابری کا “بانگِ آخون”، ولی زارخان ولی کا “بوسون” قابل ذکرہیں۔ عبدالولی خان عابد کے دورِ صدارت میں انجمن کے آئین میں ترمیم کرکے عہدوں کی میعاد ایک سال سے بڑھا کرتین سال کردی گئی۔ عبدالولی خان عابد کے بعد گل نوازخاکی ایک بار پھرانجمن ترقی کھوار کے صدر بنے۔ خاکی صاحب کے دوسرے دور میں بھی انجمن کی سرگرمیان حسبِ سابق جاری رہیں۔ انجمن کے مختلف حلقوں کی طرف سے مشاعرے اورمذاکرے منعقد کیے گیے۔
خاکی صاحب کے بعد محمد یوسف شہزاد انجمن ترقی کھوار کے صدرمقرر ہوئے۔ شہزاد صاحب کی صدارت کے دوران کئی ایک نئی کتابیں شائع ہوئیں، جن میں محمدعرفان عرفان کی “انتخابِ شعرائے چترال”، گل نوازخاکی مرحوم کی کتابیں “تھورون” اور”سورنِک” منظرعام پرآئیں۔ شیرولی خان اسیر کی کتاب “ژورنامہ ” بھی شہزاد صاحب کے دور صدارت میں زیورطبع سے آراستہ ہوئی۔ نقیب اللہ رازی کی کتاب “کھوارقاعدہ” لوک ورثہ اسلام آباد کے تعاون سے شائع ہوئی۔ شہزاد صاحب کے تین سالہ دور صدارت کے اختتام مولانا نقیب اللہ رازی انجمن کے صدر مقرہوئے۔ رازی صاحب کے دورمیں انجمن ترقی کھوارکے آئین میں دور رس اثرات کی حامل ترامیم عمل میں آئیں۔ ذاکرزخمی کا مجموعہ کلام “کھتورشنی عشق”، تاج محمدفگار کی کتاب “دل فگار” اورمولا نگاہ نگاہ کا مجموعہ کلام “نقطہ نگاہ” شائع ہوئے۔ اس دوران رازی صاحب کی قیادت میں چترالی شاعروں اوراَدیبوں کوکھوار زبان میں نصاب سازی کے سلسلے میں پشاور اور ایبٹ آباد میں مختلف ورکشاپس میں شرکت کے مواقع میسرآئے۔ ان کے نتیجے میں کھوار قاعدہ مکمل ہوکر ٹیسٹ بک بورڈ کے زیر اہتمام شائع ہؤا، جبکہ پہلی تا بارہویں جماعت کے لیے کھوار سلیبس بھی تیار کیا گیا۔
رازی صاحب کی صدارت کی میعاد پوری ہونے پر30 دسمبر2012ء کو انجمن ترقی کھوار کے ارکان نے اتفاق رائے سے راقم کوانجمن ترقی کھوار کا صدر اور خالد بن ولی کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ اُس وقت انجمن کا سب سے بڑا مسئلہ انجمن کے لیے مرکزی دفترکا حصول تھا، کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے انجمن بغیر دفتر کے چل رہی تھی۔ راقم کی کوششوں سے کامرس کالج چترال کے پرنسپل جناب سیدصاحب الدین نے کالج کے اندر انجمن کو دفترکے لیے کمرہ فراہم کیا۔ انجمن کا ایک اور بڑا مسئلہ اس کار جسٹرڈ نہ ہونا تھا۔ انجمن ترقی کھوار کے نئے جنرل سیکرٹری خالدبن ولی کی کوششوں سے انجمن ترقی کھوار صوبائی حکومت کے ساتھ ایک Learned body کے طور پر رجسٹرڈ ہوئی۔
انجمن ترقی کھوار کے مرکزی دفتر، اَڈیٹوریم کا قیام انجمن کے اراکین کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے راقم نے انجمن ترقی کھوار کے سینئر اراکین کی رہنمائی اورمشاورت سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے نام Proposal تیارکر کے موجودہ ممبر قومی اسمبلی جناب شہزادہ افتخارالدین کے توسط سے انجمن ترقی کھوار کے مرکزی دفتر وغیرہ کے لیے ایک کنال پلاٹ کے حصول کے لیے کوشش شروع کی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ ہماری کوششیں بارآورثابت ہوں گی۔
انجمن ترقی کھوار نے اب تک کھوار زبان و اَدب کے حوالے سے مختلف موضوعات پرکم و بیش ستر کتابیں اور کتابچے شائع کیے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حال ہی میں کھوارکے ایک استاد شاعرجناب بابا ایوب مرحوم کا مجموعہ کلام “کلیات بابا ایوب” کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
انجمن اپنے عام مصارف اراکین کے چندوں اورغیرسرکاری اِداروں کی مالی اعانت سے پوری کرتی ہے۔ تاہم اشاعتی اخراجات کے سلسلے میں اکادمی اَدبیات اسلام آباد کی طرف سے سالانہ پچاس ہزار روپے کی مالی اعانت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انجمن کے سینئر اراکین کی ذاتی کوششوں سے کچھ کتابیں ہاشو فاؤنڈیشن اورآغا خان کلچرل سروسز کی مالی اعانت سے بھی شائع ہوئی ہیں۔ انجمن ترقی کھوار کے ذیلی حلقوں کی تعداد 22 ہے۔ اس وقت مندرجہ ذیل حلقے پوری طرح فعال اور مرکزی انجمن ترقی کھوار سے رابطے میں ہیں: حلقہ چترال شہر، حلقہ دروش، حلقہ آیون، حلقہ کوغوزی، حلقہ پرئیت، حلقہ ریشن، حلقہ موڑکھو، حلقہ تریچ پائین، حلقہ تریچ بالا، حلقہ بونی، حلقہ مستوج، حلقہ تورکھو، حلقہ پشاوراورحلقہ اشکومن۔ اشکومن کا حلقہ کچھ عرصہ قبل تک حلقہ احبابِ سخن کھوار کے نام سے کام کر رہا تھا۔ گزشتہ سال اس تنظیم کے اراکین کے ایک وفد نے صدر سید عاشق حسین شاکر کی قیادت میں چترال کے دورے کے موقعے پر اس تنظیم کو انجمن ترقی کھوار کے ساتھ ضم کرنے کا اعلان کیا اور یوں یہ بھی انجمن ترقی کھوار کا ذیلی حلقہ قرار پایا۔ جو ذیلی حلقے موجودہ وقت غیرفعال ہیں ان میں حلقہ دنین، حلقہ چرون، حلقہ کوشٹ، حلقہ غذر، حلقہ یاسین، حلقہ لٹکوہ، حلقہ اسلام آباد اورحلقہ لاہور شامل ہیں۔ ان حلقوں کو پھر سے فعال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
انجمن ترقی کھوار 1956ء میں اپنے قیام کے بعد مختلف نشیب و فرازسے گذر کر ترقی کے موجودہ مقام تک پہنچی ہے۔ اسے اس موجودہ مقام تک پہنچانے میں چترال اور اس سے باہر کے ہرعلاقے اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے کھوار بولنے والوں کا قابل قدر حصہ ہے۔ اس وقت انجمن ترقی کھوار کھوار بولنے والے بانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زبان، ادب اور ثقافت کی نمائیندہ تنظیم ہے۔
انجمن ترقی کھوار کی سرگرمیوں کی چند تصویری جھلکیاں
دوسری انٹرنیشنیل ہندوکُش کلچرل کانفرنس 1990
تیسری انٹرنیشنیل ہندوکُش کلچرل کانفرنس 1995
کھوار نصاب سازی
انجمن کے علاقائی حلقے
حلقہ پشاور
حلقہ چترال شہر
تنظیم سازی
ایڈیٹر کا اضافہ
پہلی ہندوکش کانفرنس 1970 کی ایک یادگار تصویر
https://wemountains.com/06/08/749/
https://wemountains.com/06/08/749/کو جو خط لکھا گیا اسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔ (UNESCO)پہلی ہندوکش کانفرنس میں اقوام متحدہ کے ادارے
چوتھی ہندو کش عالمی کانفرنس 2020ء
ڈاکٹر عنایت اللّہ فیضی کے مطابق چوتھی ہندو کش عالمی کانفرنس کا انعقاد جولائی 2020ء کو ہورہا ہے2020ء پہلی ہندوکش عالمی کانفرنس 1970ء کی گولڈن جوبلی کا سال بھی ہے۔
https://web.facebook.com/IdaraBarayeTaleemTaraqi/posts/2426997743997438?__tn__=K-R