چترال میں بولی جانے والی زبانیں اور ان کے مسائل

0 1,607
  1. پلولہ: کھوارزبان کے بعد پلولہ زبان چترال میں بولی جانے والی دوسری بڑی زبان ہے ۔ پلولہ زبان میں لکھائی کا ایک معیاری نظام موجود ہے ۔  پلولہ زبان  میں کتابیں چھپ چکی ہیں اور  مزیدچھپائی کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ کتابیں کے۔جی لیول پر پرائیویٹ سکولوں میں پڑھائی بھی جارہی ہیں۔ پلولہ زبان کی شعروشاعری میں  بھی طبع آزمائی کی جارہی ہے  اور اس کے علاوہ اس زبان میں تعلیم بالغان کے سکولز بھی چل رہے ہیں۔
  2. پشتو زبان : پشتو زبان خیبر پختونخواہ کی سب سے بڑی زبان جس کے بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد چترال میں مستقل طور پرآباد ہے۔
  3. دمیلی زبان: یہ زبان چترال کے علاقے تحصیل دروش کے وادی دمیل میں بولی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر لکھائی کا نظام موجودہے تاہم اس زبان کو ترقی دینے اور زندہ رکھنے کیلئے محنت درکار ہے۔ دمیلی الف ب اور دمیلی مجموعہ الفاظ چھپ چکے ہیں اورشاعری بھی ہورہی ہے لیکن ابھی تک شاعری کے حوالے سےکوئی تصنیف موجود نہیں۔  دمیلی زبان میں ابھی تک نثری ادب پہ کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔
  4. شیخانی زبان : شیخانی زبان کو کمویری /کٹویری اور نورستانی کےنام سے بھی یاد کیاجاتاہے۔ یہ زبان وادی لوٹکوہ کے گوبور اور بالائی بومبوریت میں بولی جاتی ہے۔ شیخانی زبان میں ابھی تک بنیادی حروف کا تعین نہیں ہواہے اور نہ ہی لکھائی کا کوئی نظام موجود ہے۔ )کچھ لوگ ان زبانوں کو الگ کرکے تیں زبانیں شمار کرتے ہیں میرے حساب سے یہ ایک زبان کی تیں ڈائیلکٹ یا لہجے ہیں)
  5. کھوار زبان:چترال میں بولے جانے والے ان دس زبانوں میں کھوار بولنے والوں کی تعدادکے حساب سےسب سے بڑی زبان ہے۔ یہ زبان چترال کے تمام باسیوں کے لیے رابطے کی زبان بھی ہے۔ کھوار ایک تحریری زبان ہے اس کے لکھنے اور پڑھنے کی ایک طویل تاریخ ہے ۔قران مجید کا کھوار زبان میں ترجمہ ہوچکاہے۔ کھوار لغت چھپ چکی ہے۔ رسالے اور کتابیں شائع ہورہے ہیں۔ کھوار زبان میں شاعری  کی صنف بہت ترقی کر چکی ہےجس کا کسی بھی زبان کے ساتھ مقابلہ کیاجا سکتا ہے۔کھوار زبان کا قاعدہ اور پہلی جماعت کی کھوار کتاب ٹیکسٹ بک بورڈ خیبرپختونخواہ  کے زیر انتظام چھپ چکی ہیں اور سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔  کلاس اول سے لے کر سیکنڈ ایئر تک کھوار نصاب بن چکا ہے۔اسی سال اپریل  تک امید ہے کھوار زبان کی کتابیں پانجویں کلاس تک پڑھائی جائینگی۔
  6. کلاشہ: کلاشہ اور دمیلی زبان   چترال میں بولی جانے والے دو ایسی زبانیں  ہیں جن کو ہم چترال کی مقامی زبانیں کہہ سکتے ہیں۔  ان کے بولنے والے چترال کے علاوہ کسی اور علاقے میں اپنا وجود نہیں رکھتے ۔ چترال میں بولنے والی اور زبانوں کے لوگ ملک کے دوسرے علاقوں یا دوسرے ملکوں میں کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں ۔کلاشہ زبان میں رسم الخط موجودہیں ۔” کلاشہ دور “سکول میں  میں کلاشہ زبان پڑھائی جاتی ہے۔ الف ب کی کتاب، کلاشہ مجموعہ الفاظ چھپ چکے ہیں اور سکول میں بچوں کو پڑھانے کیلئے بھی مواد موجود ہیں۔ کلاشہ  علاقے کی واحد زبان ہے جو لکھنے کیلئے رومن رسم الخط  یعنی (رومن سکرپٹ) کو استعمال کرتی ہے ۔
  7. گوارباتی زبان۔ گوارباتی زبان ارندو کے علاقے میں بونڈری کے دونوں اطراف میں بولی جاتی ہے۔ گوار باتی زبان میں رسم الخط موجود ہے۔ ایک رسالہ بھی القلم تنظیم کے زیر سرپرستی نکلتاہے ۔ الف ب کی کتاب اور گوارباتی مجموعہ الفاظ چھپ چکےہیں ۔ ڈکشنری بھی مطبوعہ صورت میں موجود ہے۔
  8. گوجری: گوجری کا شمار پاکستان میں بولی جانے والی بڑی  زبانوں میں ہوتا ہے۔  اس زبان کے بولنے والے ملک کے ہر کونے میں موجود ہیں اور چترال میں بھی اس زبان کے بولنے والوں کی کافی تعداد موجود ہے۔
  9. مدک لشٹی وادی شیشی کوہ کے آخری گاؤں مدک لشٹ میں بولی جاتی ہے ۔ اس علاقے کی مناسبت سے اس زبان کو  مدک لشٹی وار بھی کہا جاتاہے۔ مدک  لشٹی  زبان کے لیے ابھی تک بنیادی حروف کا  تعین نہیں ہواہے۔ لکھائی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
  10. واخی زبان چترال کے بالائی علاقے واخان میں بولی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں  بھی واخی زبان بولنے والوں کی کافی آبادی موجودہے۔واخی زبان میں لکھائی کا نظام موجود ہے اور کتابین چھپ چکی ہیں لیکن ابھی تک چترال میں رہنے والے واخی زبان بولنے والوں کی طرف سے اپنی زبان میں لکھنے کا آغاز نہیں ہواہے۔
  11. یدغا زبان کو لوٹکوہی وار کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔ وادی لوٹکوہ کے پرابیک اور ساتھ کے گاؤں میں بولی جاتی ہے۔لکھنے کیلئے بنیادی اصول بنائے گئے ہیں ۔ یدغا زبان میں الف ب کی کتاب  اور مجموعہ الفاظ چھپ  چکے ہیں۔یدغا زبان میں شاعری موجود ہے ۔ نثری ادب میں کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔

چترال میں بولی جانے والی زبانوں کے مسائل :

  1. حکومتی پالیسی کا نہ ہونا:پاکستان میں ابھی تک کوئی پالیسی چھوٹی زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج کیلئے نہیں بنی۔ اس وجہ سے یہ چھوٹی زبانیں اور ثقافتیں حکومتی سرسپرستی سے محروم ہیں۔ ان چھوٹی زبانوں کو معدومیت سے بچانے کیلئے کوئی طریقہ کار وضع نہیں ہوا۔ جو تنظیمین اپنی مدد آپ کے تحت اپنی زبان اور ثقافتوں کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کرتی ہیں ان کے کام کی بھی حکومتی سطح پر کوئی  پذیرائی نہیں ہے۔
  2. تحریری مواد کا نہ ہونا۔ چترال میں بولی جانے والی زبانوں کا سب سے بڑا مسئلہ پڑھنے کیلئے مواد کا نہ ہوناہے۔چترال کی بڑی زبان کھوار میں بھی پڑھنے کیلئے مواد کم ہے کہ اس کے ذریعے سے بچے بوڑھے اور جوان اپنے علمی پیاس  بجھا سکے۔
  3. تحریری صورت :چترال میں بولی جانے والی زبانوں میں زیادہ تر کا مسئلہ یہ ہے کہ ان زبانوں میں بنیادی حروف تک کا تعین نہیں ہواہے ۔ کچھ زبانوں   میں  بنیادی آوازوں تک کا بھی تعین نہیں ہواہے کہ اسے استعمال کرکے حروف تہجی تشکیل دئے جائے ۔
  4. رسم لخط کا مسئلہ : چترال میں جن جن زبانوں میں رسم الخط موجود ہیں وہ بھی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔  ہر  لکھنے والا اپنی مرضی کا املا لکھتاہے جس کی وجہ سے مواد پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ رسم الخط کو معیاری بنانے کیلئے ہمیں  ایک ہی املا کے اصول پر متفق ہوناہوگا تاکہ ہماری لکھائی مستند اور پڑھنے والوں کیلئے آسان ہوں۔
  5. بڑی زبانوں کی طرف سے سوشل پریشیر : سوشل میڈیا کے آنے سے مقامی زبانوں کو فائدہ بھی ہواہے لیکن سوشل میڈیا ہمیشہ بڑی زبانوں کو سپورٹ کرتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹی زبانیں معدومیت کے خطرے کا شکاررہتی  ہیں  ۔
  6. زبان کی ایک نسل  سے دوسری نسل  کو منتقل نہ ہونا۔زبانوں کو معدومیت سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ زبان ایک  نسل سے دوسرے نسل  کو متنقل ہوتی رہے  لیکن چترال میں بولی جانے والی زبانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ زبانیں  نوجوان نسل کو منتقل نہیں ہورہی ہیں ۔ خاص کر یدغا زبان  کے کے ساتھ یہ مسئلہ سب سے زیادہ ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن یہی  ایک مسئلہ کسی  زبان کومعدومیت کا شکار کرنے کیلئے کافی ہے۔جوکھو چترال سے باہر کے شہروں میں رہتے ہیں ان میں اکثریت کے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہے۔
  7. مذہب کی تبدیلی کے ساتھ زبان کی بھی تبدیلی :یہ مسئلہ کلاشہ زبان کے ساتھ خاص ہے۔  جب کلاشہ لوگ مذہب تبدیل کرتے ہیں تو اپنی زبان بھی ساتھ ساتھ تبدیل کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ کلاشہ زبان بول کے بھی کسی دوسرے مذہب کو قبول کرسکتے ہیں۔
  8. زبانوں کی ترقی کیلئے پلیٹ فارم کا نہ ہونا:چترال میں زبانوں کے حوالے سے کام کرنے والی کئی تنظیمین تو موجود ہیں لیکن یہ تنظیم اس حد تک فعال یا منظم نہیں ہیں کہ صحیح طریقے سے اپنی زبان اور ثقافت کو بیرونی یلغار اور معدومیت سے بچا سکیں ۔
  9. حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی: زبان و ثقافت کےحوالے سےپاکستان کا ہمیشہ یہ المیہ رہاہےکہ یہاں پر مقامی زبانوں  اور ثقافت کو پروان چڑھانے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی گئی  ۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات تبدیل ہورہے ہیں  پہلے سے حالات اب کافی بہتر ہے لیکں پھر بھی اتنا کام نہیں ہوررہا جتنا ہونا چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email
تبصرے
Loading...