کمراٹ نیشنل پارک – بے بس لوگوں کے وسائل پر قبضے کی کوشش

0 1,373

 نوٹ۔( اس مضمون میں ایک تاریخی کردار راج میر کو دیر کوہستان کے پورے لوگوں کے لیے جز بطور کل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔راج میر دیر کوہستان کی تاریخ میں ایک اساطیری مقام رکھتے ہیں۔  مضمون میں تاریخ کو کہانی کی صورت میں بیان کرکے یہ دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پہاڑوں میں رہنے والے یہ لوگ کس طرح تاریخ کے ستم کے شکار رہے ہیں اور کس طرح یہ ستم ماضی سے حال میں مختلف شکلوں میں  رائج رہا ہے جسی کی حالیہ مثال کمراٹ نیشنل پارک کا مبہم منصوبہ ہے)۔

یہ گیارویں عیسوی ہے۔ سوات اور دیر زیرں میں ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔ محمود غزنوی کے فوج نے حملہ کیا ہے۔ مقامی لوگوں کو شکست ہوچکی ہے اور ان کا مضبوط قلعہ دشمن کے قبضے میں جا چکا ہے۔ فوج کا بھی صفایا ہو چکا ہے۔ غزنوی کے سپہ سلار پیر خوشحال کا حکم ہے کہ جو اسلام قبول کرے اسے امن سے رہنے دیا جائے گا اور جو اسلام کی وحدانیت پر یقین نہیں کرے گا وہ قتل ہوگا ۔ لوگ حیران و پریشان ہیں ۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ کیسے  صدیوں سے رائج روایات، رسوم  ورواج اور مذہبی قوانین  لخت  چھوڑ ے۔  عام آدمی شش و پنج میں ہے کس کی سنے ؟ ، حملہ آوروں کی یا اپنے بزرگوں کی  جنہوں نے وراثت میں دوسری چیزوں کے ساتھ مذہب بھی چھوڑا ہے۔ لیکن اس افراتفری کے موقع پر کس کے پاس وقت ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتائے۔ پیر خوشحال اور دوسرے رہنماء دوسرے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عام سپاہی لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتانے کے بجائے تلوار لہرا کر اسلام قبول کرنے کا کہہ رہا ہے۔ غزنوی کے لشکر جرار کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے۔

اس سے اگے بھی ان مقامی لوگوں کے خلاف لشکرکشی گاہے بگاہے جاری رہتی ہے۔ لوگ بتدریج پسپا ہوتے جارہے ہیں۔ ان سے ان کے علاقے چھینے جارہے ہیں۔ جو بھاگ سکتا ہے وہ بھاگ نکلتا ہے اور جو سامنا کرتا ہے اسے تہہ تیغ کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہتا ہے۔ کبھی اس میں تیزی اجاتی ہے تو کبھی یہ عمل مقدرے سست ہوجاتا ہے۔ ایسے میں سولہویں صدی کا پر اشوب زمانہ اتا ہے۔ ان مقامی لوگوں پر لشکر کشی تیز ہوجاتی ہے۔ ایسے میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہندوکش کے برف پوش پہاڑوں کے طرف کوچ کر رہے ہیں۔ ان میں راج میر بھی ہے۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ دیر کی طرف بھاگ رہا ہے۔

یہ سولہویں صدی عیسوی ہے۔ راج میر سوات سے بھاگ کر دیر کے اس دشوار گزار اور برف پوش علاقے میں اپنی فیملی اور دوسرے ہم نسل لوگوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔اس کے دوسرے ہم نسل  کچھ تو پڑوس کے علاقے سوات میں آباد ہیں تو کچھ دور بہت دور نانگا پربت کے دامن میں آباد ہوگئے ہیں ۔  کچھ ترچ میر کے سائے میں سکونت پذیر ہیں ۔ مغرب کی طرف بہت کم لوگ بھاگے تھے۔ جو تھوڑے بہت گئے تھے اب وہ کامدیش، گور دیش اور کنڑ کے آس پاس آباد ہیں ۔ راج میر جس علاقے میں رہتا ہے اسے سرد جہنم کہا جاتا ہے۔ بلا کی سردی ہے جس کی وجہ سے بہت کم رقبے پر مکئی کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس لئے آٹا بہت کم یاب ہے۔ لوگ دودھ ،دہی، پنیر اور پھل فروٹ پر گزارہ کر رہے ہیں۔ زندگی بہت مشکل سے گزر رہی ہے لیکن اس بات کا اطمینان ہے کہ یہاں کسی حملہ آور کے آنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔  لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ دودھ کا جلا چھاچھ پُھونک پُھونک کر پیتا ہے تو لوگ ڈرے ہوئے ہیں اس لئے پہرہ داری برابر سے کیجاتی ہے ، گاؤں اونچے جگہوں پر آباد کئے گئے ہیں تاکہ دور سے آتے دشمن کو آسانی سے دیکھ سکے ۔ کسی بھی ہنگامی حالت میں دن کے وقت دھواں اور رات کے وقت آگ سے سگنل دیے جاتے ہیں ۔

تاریخی مسجد تھل کے دروازے پر گاؤری بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ فوٹو مصنف نے بھیجی ہے

یہ 1646عیسوی کے آس پاس کا دور ہے۔ (بحوالہ دیر کوہستان ایک مختصر تعارف ازڈاکڑ حضرت بلال، صفحہ نمبر 46 )  آخون سالاک نام کا ایک مذہبی رہنماء مجاہدین کے ایک گروپ کے ساتھ راج میر کے علاقے میں آیا ہے۔ راج میر کے لوگ ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ اسلحے کے نام پر ان کے پاس صرف کچھ ٹُوٹی پھُوٹی کلہاڑیاں اور لکڑی کے ڈنڈے ہیں۔  دشمن کے پاس لوہے کی مضبوط تلواریں اور تیر کمان ہے۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ دین حق قبول کرو زندہ رہوگے ورنہ موت تمہارا مقدر ہے۔ لوگ ایک بار پھر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ رہے ہیں۔  اب کی بار ان کی منزل خزان کوٹ کا علاقہ ہے۔ دو ندی کے بیچوں بیچ یہ جگہ چھپنے کی بہترین جگہ ہے۔ لوگ خزان کوٹ پہنچ کر وہاں نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ اس لئے یہاں پھل فروٹ اور اخروٹ کے درخت لگائے جاتے ہیں۔  زندہ رہنے کے لئے اب ان چیزوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ گاؤں تو مجاہدین کے قبضے میں ہے جہاں فصلیں اگتی تھیں ۔  راج میر کچھ سال وہاں گزارتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی اس لئے یہاں بھی راج میر چھری تلے آہی جاتا ہے ۔  آخون سالاک بابا اپنے خاص مرید میاں عثمان کے ساتھ پہنچ چکا ہے۔ راج میر کا قبیلہ حیران ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ سامنے بتوٹ کے میدان میں دشمن اور پشت پر برف پوش پہاڑ جسے اس حال میں کہ پیچھے دشمن تعاقب میں ہو پار کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ لوگ جنگ کی تیاری کرتے ہیں  اور بتوٹ کے میدان میں دونوں لشکروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے۔  دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں۔ ایک طرف مضبوط لوہے کی تلواریں اور تیر کمان ہیں جبکہ دوسری طرف کاسندر( دیرکوہستان میں پائے جانی والی درخت جس کی لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے ) کے لکڑی سے بنائے گئے نیزے اور ٹوٹی پھوٹی کلہاڑیاں ہیں۔ راج میر کے لوگ شکست کھا کر پسپا ہو رہے ہیں۔  مخالف لشکر کے سپاہی ایک ایک کو پکڑ کر مار رہے ہیں۔ جو بھاگ سکتے ہیں وہ جنگلوں میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ بچے بوڑھے مرد عورت سب بھاگ رہے ہیں۔  کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔زیادہ تر مارے جا چکے ہیں ، گنتی کے کچھ لوگ بچ گئے ہیں( وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ کچھ کو زندہ چھوڑا ورنہ آج راج میر کی نسل  عنقا ہوجاتی ) جن کو پکڑ کر امیر لشکر کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ تین بندے ابھی تک غائب ہیں۔ ایک مرد اور دو عورتیں، مرد کا نام کاشکین ہے۔ امیر صاحب کہہ رہا ہے فکر کی کوئی بات نہیں اس جنگل سے وہ کہاں جا سکتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ کاشکین چترال کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور دونوں عورتیں جنگل میں ہی مرگئی ہیں۔ بچے ہوئے سب لوگوں کو مسلمان کیا جا چکا ہے۔ سپہ سالار نے لوگوں کو گاؤں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن امیر صاحب کا حکم ہے کہ پرانے گاؤں کے بجائے دریا کے قریب نئے گاؤں بنایا جائے ۔ راج میر ایک بار پھر اپنے لیے گاوں میں نیا گھر بنا رہا ہے ۔ ( دیر کوہستان کی لوک کہانیوں سے ماخوذ )

یہ آٹھارویں صدی عیسوی ہے۔ دیر کے تقریباً زیادہ تر لوگ مسلمان ہوچکے ہیں لیکن حکمران طبقہ ابھی تک غیر مسلم ہے۔ یہ حکمران طبقہ پتہ نہیں کیسے آخون سالاک بابا سے بچ گیا ہے۔ آخون سالاک بابا کا انتقال ہو چکا ہے۔ مسند اقتدار پر اب خان ظفر خان براجمان ہے۔ داروڑہ شاکس سے اوپر کے علاقے پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لئے تقریباً 1804 ءکے قریب وہ دیر خاص پر حملہ کرکے شاہی قلعے کو تہس نہس کر دیتا ہے ۔ حکمران طبقہ شکست کھا کر نامعلوم علاقے کے طرف بھاگ جاتا ہے۔ خان صیب دیرخاص میں ایک مضبوط قلعہ بنا کر اسے اپنا درالحکومت قرار دیتا ہے۔ ( بحوالہ گمنام ریاست، حصّہ اول ، صفحہ نمبر 117 )

راج میر پر اس تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑا ۔ وہ ان سب سے لاتعلق اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے علاقے میں رہتا ہے۔ زندگی بغیر کسی ہلچل کے گزر رہی ہے۔ لوگ پرانے واقعات کو بھول کر نئی زندگی شروع کر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ یونہی امن و امان سے گزرتا ہے لیکن ایک بار پھر راج میر کی قوم کو جنگ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 1891ء ( بحوالہ دیر کوہستان ایک مختصر تعارف ، صفحہ نمبر 41 ) کے آس پاس کا واقعہ ہے جندول سے عمراء خان نام کا ایک بندہ اپنے لشکر کے ساتھ آیا ہے۔ ( بحوالہ گمنام ریاست ، صفحہ نمبر 147 )۔

 لیکن راج میر کے علاقے میں اس کی موجودگی اسلام کے وجہ سے نہیں ہے کیونکہ راج میر کے لوگ اب مسلمان ہیں۔ اس نے دیر کے خان جنہیں اب نواب کہا جاتا ہے کے راج پر قبضہ کرکے اسے سوات بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ راج میر کا دیر کے نواب یا دیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  راج میر کا علاقہ نواب کے پورے راج میں سب سے زرخیز اور خوبصورت علاقہ ہے۔  اس لئے عمراء خان نے حملہ کیا ہے۔  اب جنگ مذہب کے نام پر نہیں ہے بلکہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔ لیکن راج میر جانتا ہے کہ گیارویں عیسوی سے جاری اس جنگ کا مقصد مذہب کی ترویج نہیں ہے بلکہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔ لیکن وہ بے بس ہے ۔  نہ وہ یہ بول سکتا ہے کہ مذہب کے نام پر ہمارے وسائل لوٹنے والے مجاھد نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں اور نہ کچھ کر سکتا ہے۔

ایک بار پھر راج میر اور ان کے لوگ جنگ کے لئے تیاری کرتے ہیں۔  اس دوران راج میر کے آس پاس بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔  راج میر کے زیادہ تر لوگ اب کوہستانی نہیں رہے۔  انہیں اب پشتون بنایا گیا ہے۔  ان کی بائی زبان گاؤری جو راج میر کی مادری زبان تھی  اسے لوگ بھول چکے ہیں اور غور کرنے سے بھی وہ لوگ کہیں سے بھی داردی گاؤری نہیں لگتے۔ راج میر کے لوگ اب اقلیت میں ہیں اور ایک مخصوص علاقے میں محدود ہوکر رہ رہے ہیں۔ جسے دیرکوہستان کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا جاتا اگرچہ اب بندق کی جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن جنگ اب بھی جاری ہے۔  راج میر کے آبائی علاقوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ جار کو بیاڑ نام دیا جاتا ہے اور راجکوٹ کو پاتراک کہا جاتا ہے۔ خود راج میر کے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ایک حصہ سوات کے علاقے کالام اور آس پاس کے وادیوں میں رہتا ہے اور ایک حصے نے کاش دادا کی راستے پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کاشکین پاس کے راستے چترال چلے گئے ہیں۔ چترال جانے والے گاؤرین نے تو پیچھے کی کوئی خبر نہیں لی لیکن راج میر کے بزرگوں نے الگ شناخت دیکر انہیں یاد رکھا ہے۔ انہیں موسینگور کہا جاتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ لوگ چترال میں کہاں رہتے ہیں؟، البتہ سوات جانے والوں کے ساتھ اب بھی راج میر کا رابطہ ہے۔ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا ہے ۔

جنگ سر پر پہنچ گئی ہے۔ راج میر نے سوات پیغام بھیج کر اپنے بھائیوں کو بھی بلایا ہے ۔ عمراء خان نے جٹکوٹ ( راجکوٹ کا مغربی محلہ ) کے مقام پر مقامی داردی لوگوں کو شکست دی ہے اور راستے میں آنے والے ہر گاؤں مسجد سمیت مسمار کرکے وہ اب تھل پہنچ چکا ہے۔ تھل کا کونڈ شئی میدان ہے۔ راج میر کے ساتھ سوات سے آنے والے بھائی بھی اس جنگ میں شریک ہیں۔  دونوں لشکروں میں زوردار جنگ چھڑ جاتی ہے لیکن کہاں تھوڑے دار بندوق اور کہاں برٹش آرمی کی جدید رائفلیں اس لئے بہادری سے لڑنے کے باوجود راج میر کو شکست ہوجاتی ہے۔ جنگ ختم ہوجاتی ہے اور راج میر کا علاقہ جس پر نواب آف دیر نے اب تک قبضہ نہیں کیا تھا اب عمران  خان کے راج میں شامل ہوجاتا ہے۔( بحوالہ دیر کوہستان ایک مختصر تعارف ، صفحہ نمبر 42 )۔  اس جنگ کے بارے میں ایک امریکی ماہر نسلیات لنکن کی  (Lincoln Keiser)لکھتا ہے ؛

He attacked the Kohistani communities in the upper Panjkora valley in about 1891, According to the local tradition the Kohistanis of Dir were aided by their brethren in Swat, but arm with slings and ancient matchlocks they could not stand before the modern rifles of Umara Khan,s forces . rifles purchased with British consent in India. from that time forward Thal and other villages of Dir Kohistan were part of Dir state. ( Death Enmity in Thul: Organized Vengeance and Social Change in a Kohistani Community page: 496)

عمراء  خان واپس جاتا ہے اور پھر چترال، آسمار اور آس پاس کے علاقوں پر حملہ کرکے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرتا ہے کہ اتنے میں بڑے نواب ( برٹش سرکار) اس سے ناراض ہوجاتا ہے اور اسے سزا دے کر افغانستان بھاگنے پر مجبور کرتا ہے۔ ( بحوالہ گمنام ریاست، صفحہ نمبر 147 )  نواب دیر بڑے نواب ( برٹش راج )  کے رحم کی وجہ سے دوبارہ دیر پر راج شروع کرتا ہے۔ وقت گزرتا ہے اور راج میر کے ساتھ اس کے لوگ بھی سب کچھ بھول کرایک بار پھر زندگی کی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ لیکن نواب بہت ظالم ہے۔ نواب کے بیگار بہت ہیں اور اوپر سے ہر سال ہر گھر سے نواب کو خراج دیا جاتا ہےجسے محصول کہا جاتا ہے۔ لیکن راج میر خوش ہے کہ جو بھی ہے کم سے کم زندہ رہنے کا حق تو ملا ہے۔ کچھ عرصہ گزر جاتا ہے پھر ایک دن خبر آتی ہے کہ پاکستان نام کا کوئی ملک بنا ہے اور اس نے دیر کے نواب کو ہٹا کر راج میر کے علاقے کو آزاد کرایا ہے۔ سب خوش ہیں کیونکہ ظالم نواب کے ظلم سے نجات مل گئی ہے ۔ زندگی رواں دواں ہے۔  ہر طرف اب امن و شانتی ہے۔ راج میر کے علاقے کو اب دیر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اضی کا سرد جہنم اب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے خوبصورت جنّت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس طرح وقت گزرتا ہے کہ اچانک ایک بار پھر جنگ کا طبل بج جاتا ہے۔ یہ 1974ء کے قریب کا زمانہ ہے۔ راج میر حیران ہے کہ اب کی بار مد مقابل کون ہوگا اور کیوں؟۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا نواب ( بھٹو  حکومت) اب کے بار میدان جنگ سجا رہا ہے۔ اور اب کے بار نشانہ راج میر اور آس پاس بسے دوسریقوموں کے جنگلات ہیں۔ راج میر روز روز کی اس جنگ سے تنگ آ چکا ہے لیکن ہر بار اسے جنگ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ،راج میر ایک بار پھر اپنے اسلحے کو صاف کرتا ہے اور میدان جنگ کی طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ اس بار ماضی کے دشمن بھی راج میر کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سب کی خواہش ہے بھٹو نام کے اس نواب سے اپنے جنگلات بچائے جائے ۔ اس لئے سب جی توڑ کر لڑتے ہیں۔ بڑے نواب (بھٹو ) کو شکست ہوجاتی ہے اور راج میر کے لوگوں اور نواب (بھٹو ) کے درمیان ایک معاہدہ ہوجاتا ہے جس کے رو سے راج میر کے علاقے کے جنگلات اور سرسبز چراگاہوں پر راج میر کے لوگوں کا حق حاصل ہوگا۔ اسی طرح ہر علاقے پر وہاں کے مقامی لوگوں کا حق مانا جاتا ہے۔ دشمن جاچکا ہے ۔ زندگی ایک بار پھر گنگنا رہی ہے۔ وقت گزرتا ہے اس دوران راج میر اور آس پاس کے دوسرے غیر داردی قبائل میں رشتے ناطے ہوچکے ہیں اور پورے علاقے میں امن و امان ہے۔ زندگی مزے سے گزر رہی ہے۔ لوگ ماضی کو بھول چکے ہیں۔ ماضی کے سب واقعات اب کہانیاں لگتی ہیں۔

لیکن ایک بار پھر کچھ لوگ آتے ہیں ۔ اب کے بار آنے والے کے مطالبات کچھ اور ہیں۔  ان کے بقول جو اسلام راج میر اور ان کے لوگوں نے قبول کیا تھا وہ اسلام کی صحیح شکل نہیں ہے ۔ اس لئے دوبارہ سے اسلام قبول کروایا جاتا ہے ۔ راج میر کے لوگ قبروں کے اوپر بطور عقیدت اور حفاظت ( جنگلی جانوروں سے بچانے کے لئے ) لکڑی سے بنے ہوئے خوبصورت نقش و نگار والے جنگلہ لگاتے تھے لیکن امیر صاحب کے نزدیک یہ غیر اسلامی ہے اس لئے اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ شاری آیان ، بسنو آیان، اور سی داگ جیسے تہوار جو راج میر کے لوگوں کی پہچان تھے وہ بھی ممنوع قرار دیےگئے ہیں ۔ نئے آنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب فرسودہ رسومات ہیں اور اسلام میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے ۔  راج میر کے آباء و اجداد کی پرانی تعمیرات یہاں تک کہ پرانے زمانے کی  قبریں تک سب  پر کفر کا لیبل لگا کر مسمار کر دیے جاتے ہیں ۔راج میر کا دل خون کے آنسوں رو رہا ہے ۔  وہ جانتا ہے کہ یہ ان کی پرکھوں کی نشانیاں تھیں۔ یہ راج میر اور ان کے لوگوں کا سرمایہ تھا لیکن مولانا نے مسمار کرنے کا حکم دیا ہے تو حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ۔  راج میر کے پورے علاقے سے کفر ( راج میر کے آباء و اجداد ) کی نشانیاں ایک ایک کرکے مٹا دیجاتی ہیں ۔ راج میر بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ لیکن کچھ کرنے سے ڈرتا ہے ۔  صدیوں سے جاری اس جنگ نے اسے تھکادیا ہے ۔  اس لئے اب وہ آرام سے زندگی گذارنا چاہتا ہے سو وہ خاموش ہے ۔ اس طرح وقت گذرتا ہے راج میر اور ان کے ہم نسل لوگ چین اور آرام سے زندگی گذار رہے ہیں ۔ وقت گذر رہا ہے ۔ راج میر کا علاقہ اب اپنا الگ پہچان بنا چکا ہے۔  ملک بھر سے ہر سال لاکھوں لوگ راج میر کے جنت کو دیکھنے آتے ہیں۔ راج میر کے لوگوں نے بھی اپنے علاقے کو مختلف داردی قبائل میں تقسیم کیا ہے اور لوگوں نے ہوٹلز وغیرہ بناکر دوچار روپے کمانے شروع کئے ہیں۔ سب خوش ہیں کہ کراچی کے چوکیداری سے نجات مل گئی اور گھر میں دو پیسے کمانے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن  انکا دکھ یہاں ختم نہیں ہوتا کہ بقول شاعر

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے

 جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

ایک بار پھر کچھ لوگ آتے ہیں اور راج میر سے علاقہ خالی کرنے کو کہتے ہیں۔ اب کی بار نواب صاحب کا پلان کسی نیشنل پارک بنانے کا ہے۔ راج میر حیران ہے کہ نیشنل پارک کیا  بلاہے؟ وہ لوگوں سے پوچھتا ہے لیکن کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ پیغام لانے والے بھی بس اتنا جانتے ہیں کہ نیشنل پارک بن رہا اس کے علاوہ وہ بھی کچھ نہیں جانتے۔ راج میر حیران ہے کہ اگر نیشنل پارک بن گیا تو اس کے مویشیوں کا کیا ہوگا۔ سال کے سات مہینے وہ ان پہاڑوں جہاں نیشنل پارک بنایا جائے گا وہاں رہتا ہے ۔ وہ  سات مہینوں کی محنت سے گھی دودھ اور دوسری کھانے کے چیزیں بناتا ہے اوراسے بیچ کر دو چار روپے کماتا ہے۔ یہ جنگل اس کےلئے سب کچھ ہے۔ سردیوں میں اس کی لکڑی جلا کر وہ اپنے فیملی کو سردی سے بچاتا ہے۔ اس جنگل کے گھاس اور پتے سردیوں میں اس کے جانوروں کی خوراک ہے۔

وہ حیران ہے کہ اگر نیشنل پارک بن گیا تو اس کا کیا ہوگا۔ کیا اسے اپنے مویشی وہاں لیجانے کی اجازت ہوگی ؟کیا اسے جلانے کے لئے لکڑی ملے گی ؟ کیا اسے ان پہاڑوں میں آزادی سے گھومنے کی اجازت ہوگی؟ وہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کوئی اسے جواب نہیں دیتا۔ کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہے تو کیا جواب دے گا۔  وہ اپنے بزرگوں سے پوچھتا ہے تو وہ بھی بے بسی سے سر ہلادیتے ہیں۔

 اب کی بار صرف راج میر کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن وہ جانتا ہے شروعات اس سے ہوگی اور آہستہ آہستہ آس پاس جتنے بھی علاقے ہیں اس پر آج کا ڈیجیٹل نواب قابض ہوجائے گا۔ راج میر کے بڑے مشورہ کرکے عدالت کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جا کر اس قدام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ راج میر اور دوسروں کو سختی سے ہدایت کیجاتی ہے کہ وہ خاموش رہیں ورنہ تو راج میر کا دل چیخ چیخ کر کہنا چاہتا ہے کہ سوات کے زرخیز زمینوں سے ہمیں بے دخل کر کے ہمیں ان پہاڑوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ہم خوشی سے یہاں نہیں آئے تھے ۔ جب یہ سرد جہنم تھا تو ہم نے اسے آباد کیا۔ یہاں کے ایک ایک درخت ایک ایک پتھر پر ہماری نشانی ہے۔ لیکن اب جب یہ سرد جہنم سے تبدیل ہوکر جنت بن چکا ہے تو ان سے چھیننے  کی کوشش ہو رہی ہے۔  وہ سوچ رہا ہے کہ اگر عدالت نے بھی ان کے خلاف فیصلہ دیا تو پھر کیا ہوگا۔ اس کے لوگوں کا کیا ہوگا؟  مال مویشیوں کا کیا ہوگا َ؟ جو راج میر کی زندگی کے اسّی فیصد ضروریات پوری کرتا ہے ۔کیا اسے ایک بار پھر نقل مکانی کرنی ہوگی؟ اسے کہاں جانا ہوگا ؟  یا  ایک بار پھر بتوٹ کا میدان سجے گا ؟ وہ انتہا پسند یا جنگوو نہیں ہے بلکہ وہ تو ستار کے دھن پر سر ہلانے والا ایک مست داردی ہے ۔ اس کی امن پسندی کا اس سےبڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ پڑوس کا علاقہ سوات آگ میں جل رہا تھا اور اس کے علاقے میں ایک فائر تک نہیں ہوا ۔ اس نے اگر کبھی اسلحہ اٹھایا بھی ہے تو اپنی عزت اور اپنی بقاء  خاطر  اٹھایا ہے۔ اسے پھر ایسا کرنے پر نہ اکسایا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email
تبصرے
Loading...