کھوار زبان و ادب: ایک تعارف

0 1,404

کھوار (کھو لوگوں کی زبان) انڈو آرئین زبانوں کی اس شاخ سے تعلق رکھتی ہے جسے دردی (Dardic) کہا جاتا ہے۔ دردی زبانیں پاکستان اور افغانستان کے شمال کے پہاڑی خطے کی کئی وادیوں میں بولی جاتی ہیں۔ کھوار زبان کی جنم بھومی وادی چترال کا شمالی حصہ اور خصوصاً اس کی وہ مغربی وادی ہے جسے “کھو” کہا جاتا ہے۔چ کھو نہ صرف اس وادی کا نام ہے بلکہ یہاں کے رہنے والے بھی کھو کہلاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق چترال کی وادی میں پہلی باقاعدہ ریاست کی بنیاد کھو علاقے میں پڑی اور یہیں سے یہ ریاست چترال کے جنوبی علاقوں نیز مشرق کی طرف درہ شندور کے پار غذر اور یاسین کی وادیوں تک پھیلی۔ ریاست کے اقتدار کے ساتھ ساتھ کھو لوگ بھی اپنی زبان کو لے کر ان علاقوں میں پھیل گئے۔ آج کھوار زبان پورے وادی چترال میں بولی جاتی ہے اور اس کے علاوہ غذر، یاسین، اشقمون اور پونیال کی وادیوں میں بھی کھوار وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ سوات کے شمال میں کالام کی وادی میں بھی کھوار بولنے والوں کی ایک چھوٹی آبادی موجود ہے۔ چترال کے کئی حصوں میں کھوار نے آصل مقامی زبانوں کو بڑی حد تک بے دخل کردیا ہے اور کئی علاقوں میں چھوٹی مقامی زبانیں کھوار کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔ ایک محتاظ اندازے کے مطابق کھوار بولنے والوں کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔

کھوار زبان کافی وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہونے کے باوجود بڑی حد تک یکساں ہے۔ اس کی کوئی مقامی بولیاں نہیں اور لہجے کا علاقائی فرق بھی بہت کم ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاست چترال کے دور میں سرکاری انتظام کے تحت کھوار بولنے والے مختلف علاقوں کے درمیان آبادی کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا اور یوں زبان میں فرق پیدا ہونے کے امکانات کم رہتے تھے۔

کھوار بنیادی طور پر انڈو آرئین زبان ہے اور اس کا بیشتر ذخیرہ الفاط اور جملوں کی ساخت کا تعلق انہی زبانوں سے ہے۔ اس گروپ میں اس کی قریب ترین زبان کلاشہ ہے۔ اس کے بعد یہ دیگر دردی زبانوں جیسے کشمیری، شینا، کوہستانی،   توروالی، گاؤری، دمیلی، گواربتی وغیرہ سے مشابہت رکھتی ہے۔ تاہم شمال کی طرف سے ایرانی النسل زبانوں سے جعرافیائی قربت کی وجہ سے کھوار پر ان زبانوں کا کافی اثر پڑا ہے اور فارسی، وخی اور منجانی زبانوں کے بے شمار الفاظ کھوار کا حصہ ہیں۔ جنوب کی طرف سے پشتو زبان نے بھی کھوار پر اثرات ڈالے ہیں اور کئی پشتو الفاظ اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان کے علاوہ ترکی الاصل زبانوں کے الفاظ بھی کھوار میں کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان تمام بیرونی اثرات کے باوجود کھوار نے اپنا انڈو آرئین تشخص نمایاں طور پر برقرار رکھا ہے۔ بہت سے انڈو آرئین الفاظ اپنی قدیم ترین شکل میں صرف کھوار میں محفوظ ہیں۔

کھوار ایک تحریری زبان ہے۔ کھوار لکھنے کی اولین معلوم مثال اتالیق محمد شکور کی ہے جنہوں نے اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران اپنے کھوار اشعار فارسی رسم الخط میں لکھے۔ اسی طرح کے لکھے ہوئے کھوار نمونے بعد میں دوسرے شاعروں کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ چونکہ کھوار میں کئی ایسی آوازیں ہیں جنہیں فارسی حروف صحیح طریقے سے ظاہر نہیں کرتے اس لیے کھوار کے اپنے حروف تہجی کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ اس سلسلے میں اولین کوشش 1920کے لگ بھگ شہزادہ محمد ناصرالملک اور مرزا محمد غفران نے کی۔ یہ کام رفتہ رفتہ آگے بڑھا اور 1960 کی دہائی میں بالاخر کھوار حرف تہجی کی تختی مکمل صورت میں سامنے آئی۔ اس تختی میں اردو کے تمام حروف تہجی کے علاوہ چھ زائد حروف ہیں جو کھوار کی ان آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں جو فارسی اور اردو میں نہیں۔ اس وقت کھوار حروف کی تختی انٹرنیشنل یونی کوڈ میں شامل ہوچکی ہے اور اب کمپیوٹر اور ویب پر کھوار لکھنا ممکن ہوگیا ہے۔

دیگر زبانوں کی طرح کھوار میں بھی ادب کی تخلیق کا آغاز شاعری سے ہوا۔ اس کے قدیم نمونے وہ گیت ہیں جو نسل در نسل زبانی روایت ہوتے آئے ہیں۔ ان گیتوں میں زیادہ تر کا موضوع محبت ہے تاہم قدرتی ماحول اور پالتو جانوروں کے بارے میں بھی گیت پائے جاتے ہیں۔ کسی عزیز یا حکمران کی وفات پر حزنیہ گیت کہنے کی روایت بھی بہت قدیم ہے۔ یہ حزنیہ گیت بھی عشقیہ گیتوں کی طرح موسیقی کی محفلوں میں گائے جاتے ہیں۔ کھوار لوک گیتوں میں جنگ کا موضوع نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ چترال تاریخی طور پر ارد گرد کے علاقوں کی نسبت کسی قدر پر امن رہا ہے۔ عشقیہ گیتوں میں ضمنی طور پر دوسرے مضامین بھی وارد ہوتے رہتے ہیں جیسے وطن سے دوری اور حکمرانوں کے ظلم کی شکایت وغیرہ۔ کھوار کے کچھ بہت قدیم گیتوں کے خالق نامعلوم ہیں لیکن بیشتر گیت کسی نہ کسی شخصیت سے منسوب ہیں اور ان کے ساتھ کوئی رومانس وابستہ ہے۔ کھو معاشرے میں زندگی میں ایک آدھ بار عشق کرنے اور اس کا اظہار گیتوں کی صورت میں کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ گیت کہنے والا عام طور پر اپنے گیت اول خود ہی گاتا تھا اور ان سے دوسرے گانے والے یہ سلسلہ آگے بڑھاتے۔ عشقیہ گیتوں میں محبوبہ کا ذکر برملا طریقے سے ہوتا تھا بلکہ اکثر اس کا نام بھی گیت میں آتا تھا۔ کھوار کے کئی لازوال گیت خواتین کے نام پر ہیں جیسے خوش بیگم، یورمس بیگم، انواز بی بی، زر بی بی وغیرہ۔ یہ چیز خاتون کے خاندان کے لیے کسی بدنامی کا باعث نہیں سمجھی جاتی تھی۔ عشقیہ گیت کہنے کی رویت اتنی پختہ تھی کہ حکمران اور عالم و فاضل لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں تھے۔ محترم شاہ کٹور ثانی (متوفی 1837) اور اس کے ہم عصر علمی شخصیت مرزا محمد سیر دونوں کے عشق اور ان سے منسوب گیت زبان زد خاص و عام ہیں۔ عشقیہ گیتوں کا فیشن اس قدر عام تھا کہ وہ لوگ جو خود گیت نہیں بنا سکتے تھے کسی پختہ کار گیت کار سے اپنے نام پر گیت بنوا دیتے۔ یہ کام چوری چھپے نہیں ہوتا تھا بلکہ گیت کار مجلس میں اعلان کرتا تھا کہ میں یہ گیت فلاں کی طرف سے کہ رہا ہوں۔ عشقیہ گیتوں کے سلسلے کا آخری مشہور رومانس مرزا علی جان کا ہے جو انیس سو ستر کی

چترال میں مسجدوں میں نقش و نگار۔۔ تصویر از ممتاز حسین

دہائی سے تعلق رکھتا ہے۔

کھوار لوگ ادب کا ایک اہم حصہ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ قصہ گوئی یہاں پر ایک فن کی حیثیت رکھتی تھی اور مختلف عمر کے سامعین کے لیے الگ الگ طرح کی کہانیوں کا رواج رہا ہے۔ طویل داستانیں جو بڑوں کی مجلسوں میں سنائی جاتی تھیں عموماً فارسی داستانوں سے ماخوذ ہیں لیکن کئی صدیوں کے دوران ان پر مقامی رنگ غالب آگیا ہے۔ گھروں میں بچوں کو سنانے کے لیے الگ کہانیاں ہوتی ہیں جو مقامی طور پر نشو نما پا چکی ہیں۔ ان کہانیوں میں جانوروں کے کردار بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

لوک ادب کے ساتھ ساتھ تحریری ادب کی تخلیق بھی ہوتی رہی۔ اتالیق محمد شکور (متوفی 1786) اور شہزادہ تجمل شاہ (متوفی 1841) کا کھوار کلام تحریری صورت میں موجود ہے۔ بیسوی صدی کے دوران کھوار لکھنے کی شعوری کوشش مہتر محمد ناصر الملک (متوفی 1943) کی تحریک سے ہوئی۔ ان کے بعد ان کے بھائی شہزادہ محمد حسام الملک نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے نہ صرف خود نظم و نثر میں کھوار ادب کا کافی بڑا ذخیرہ تخلیق کیا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترعیب دی۔ ان کی قیادت میں کھوار زبان و ادب کی ترقی کے لیے ایک تنظیم 1957 میں انجمن چترال کے نام سے وجود میں آئی۔ یہ تنظم بعد میں انجمن ترقی کھوار کہلائی اور اب بھی زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور تنظیمیں بھی ادبی اور لسانی شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔

کھوار ادب کی ترقی میں ریڈیو پاکستان نے قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے کھوار نشریات کا آغاز 1964 میں ہوا۔ کھوار کے پہت سے قدیم گیت ریڈیو پر ریکارڈ ہونے کی وجہ سے محفوظ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے کھوار حمد و نعت، ملی نعمے اور بچوں کے گیت لکھے گئے۔ ریڈیو نے کھوار بولنے والوں کو ان کی اپنی زبان میں ڈرامے سے آشنا کیا۔ ریڈیو کی نشریات نے نے کھوار کے اندر موجود علاقائی فرق کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ انہیں ہر علاقے میں سنا جاتا تھا۔ اس وقت ریڈیو پاکستان کے پشاور، چترال اور گلگت کے سٹیشنوں سے کھوار نشریات ہوتی ہیں۔ حکومت پاکستان کا محکمہ اطلاعات ایک زمانے میں ایک کھوار رسالہ “جمہور اسلام” کے نام سے شائع کیا کرتا تھا۔ اس رسالے نے برسوں تک کھوار لکھنےوالوں کی تخلیقات کو منظر عام پر لانے کا فرض انجام دیا۔

کھوار زبان میں اس وقت نظم و نثر کی تمام اصناف میں بڑی مقدار میں ادب تخلیق ہورہا ہے۔ لیکن اس کا

چترالی سیتار۔۔ تصویر از ممتاز حسین

بڑا حصہ اب بھی شاعری پر مشتمل ہے۔ فارسی اور اردو کی روایت کے مطابق غزل کھوار میں بھی مقبول ترین صنف ہے۔ بے شمار شاعر اس وقت غزل کہہ رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایسے ہیں کہ ان کا کلام خیالات کی بلندی اور پرائیہ اظہار کے لحاظ سے دوسری زبانوں کی شاعری کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ چترالی ثقافت اور کھوار زبان فارسی سے بہت متاثر ہیں اس لیے کھوار ادب کا بھی فارسی ادب سے گہرا اثر لینا تعجب کی بات نہیں۔ اگرچہ لوگ گیتوں میں بھی فارسی اثرات نظر آتے ہیں لیکن یہاں غالب رنگ مقامی ہی ہے۔ تاہم کھوارغزل فارسی اور اردو غزل کی روایت سے شدید متاثر نظر آتی ہے اور اس میں مقامی رنگ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت کھوار زبان کے کئی رسالے نکل رہے ہیں اور ہر سال نظم و نثر کی بہت سی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔

کھوار شاعری اور چترالی موسیقی کا رشتہ بڑا گہرا ہے۔ دراصل ہماری موسیقی کی بنیاد ہی کھوار کے قدیم گیتوں پر رکھی گئی ہے۔ یہاں پر موسیقی کی جیسی بھی درجہ بندی کی جاتی ہے اس میں مخصوص گیتوں کی دھنیں ہی بنیاد کا کام دیتی ہیں۔ مثلاً دنی، اشور جان، یارمن ہمین، خوش بیگم، شب دراز جو کہ موسیقی کی مشہور دھنیں ہیں، اصل میں گیتوں کے نام ہیں۔ جو گیت زیادہ مشہور ہوا اس کی دھن ایک علٰحیدہ روایت بن گئی جس کی دوسروں نے تقلید کی۔ جیسے اشور جان کی روایت اتنی زیادہ پرانی تو نہیں لیکن اس کی دھن اتنی مقبول ہوگئی کہ اس طرز کے بہت سے گیت وجود میں آگئے۔ یہاں کی موسیقی کے آلات کو ہم بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اول، وہ ساز جو پیشہ ور فن کار بجاتے ہیں یعنی ڈھول سرنا۔ دوسری قسم ان سازوں کی ہے جو شوقیہ فن کار بجاتے ہیں یعنی ستاراور دف۔ بانسری بنیادی طور پر پیشہ ور فنکار بجاتے ہیں لیکن یہ شوقیہ طور پر بھی بجائی جاتی تھی۔ چند سال پہلے تک لڑکیاں موسم بہار میں بانسری بجایا کرتی تھیں لیکن اب یہ روایت ختم ہوگئی ہے۔ چترالی موسیقی کے آلات میں ستار سب سے اہم ہے۔ اسے نسبتاً سنجیدہ لوگ شوقیہ طور پر بجاتے ہیں اور محدود مجلسوں میں بجائی جاتی ہے۔ یہاں ستار بجانے کو ایک شریف فن سمجھا جاتا ہے اور اس کے فنکار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ چترالی ستار یہاں کے ثقافتی ورثے کے ان چند اجزاء میں سے ہے جنہیں

چترالی صوفی موسیقار۔۔ تصویر از ممتاز حسین

دوسرے علاقوں میں پزیرائی ملی۔ آج پختون کلچر میں بھی چترالی ستار کا اہم مقام ہے۔

نسبتاً چھوٹی اور پس ماندہ علاقے کی زبان ہونے کے باوجود کھوار نے شدید بیرونی دباو کے سامنے نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ کئی مقامات پر یہ دوسری زبانوں کی جگہ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ چترال کی جنوبی وادیوں اور یاسین، اشقمن وغیرہ میں کھوار نے گذشتہ دو صدیوں کے دوران نمایاں پیش قدمی کی ہے۔ اس وقت ایک طرف کھوار بولنے والوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف جعرافیائی طور پر بھی یہ زبان پھیل رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس زبان میں لکھنے پڑھنے کی روایت روز بروز پختہ ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بحیثیت ایک زبان کے کھوار کا وجود کسی فوری خطرے سے دوچار نہیں۔ البتہ کھوار بولمے والوں میں یہ احساس موجود ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کی شمولیت سے کھوار کی شکل وصورت تبدیل ہورہی ہے۔ اگرچہ یہ رجحان تشویش ناک ہے لیکن امید یہ ہے کہ کھوار لکھنے پڑھنے کا رواج جوں جوں بڑھتا جائے گا، زبان کی اصل شکل کا تحفظ اتنا ہی یقینی ہوتا جائےگا۔

Print Friendly, PDF & Email
تبصرے
Loading...