The aim of this magazine is to connect the communities of Hindu Kush, Himalaya, Karakorum and Pamir by providing them a common accessible platform for production and dissemination of knowledge.
داردوں کا برصغیر کے ورثے پہ اثر و رسوخ
ہمارے پڑھنے والوں کو پہلے سمجھانا پڑے گا دارد کیا ہے۔داردستان برصغیر کا ایک ثقافتی اور لسانی جغرافیا علاقہ جس میں گلگت بلتستان، وادی کشمیر، سوات ، دیر کے بالائی علاقے، آباسین کوہستان ، چترال اور افغانستان میں جلال اباد کے شمال میں دریائے کنڑ کی گھاٹیاں اور نورستان شامل ہے۔
یہاں کے باسی دارد dards کہلاتے ہیں۔یوں تو پورے پاکستان کی زبانوں سے زیادہ زبانیں اس علاقے میں بولی جاتی ہیں۔لیکن اکثریتی زبانیں ہند آریائ زبانوں کی شاخ dardic سے تعلق رکھتی ہیں۔توروالی، گاوری، شینا، کشمیری ، کھوار، کلاشا وغیرہم۔
یوں تو مغربی دنیا کیلئے یہ علاقہ پراسرار اور سحر انگیز رہا۔
بدقسمتی سے کچھ مغربی ریسرچرز جیسے Georg Morgenstierne نے کام کیا۔1947 کے بعد میں پروفیسر احمد احسن دانی نے کام کیا۔
اب یہاں کے لوکل لوگوں اور کچھ تنظیموں نے داردی ورثے کیلئے کام کرنا شروع کیا ہے جس میں IBT ادارہ برائے تعمیر و ترقی کا اہم کردار ہے۔جن کے کام کو مغربی دنیا میں سراہا گیا ہے۔اس ضمن میں داردی لوکل زبانوں کیلئے زبیر توروالی، عزیز داد اور پروفیسر ممتاز حسین کی خدمات قابل تحسین ہیں۔
داردی قدیم لوگ ہیں ۔یہ ہند آریا لوگ ہیں۔قبل مسیح میں ہند آریا وسطی ایشیا سے ہندوکش کی وادیوں میں آباد ہوئے۔ہندوکش ، ہمالیہ اور قراقرم پہاڑی سلسلے کی وادیوں میں مسکن کے بعد یہ ہند آریا آہستہ آہستہ دریائے سندھ ، دریائے کنڑ اور دریائے سوات کیساتھ ساتھ ہوتے ہوئے میدانی علاقوں میں پہنچے۔یعنی وادی پشاور کے میدانوں علاقوں اور دریائے سندھ کے پار پنجاب میں ۔
ان داردی لوگوں کا برصغیر کی ثقافت اور لسانیات پہ گہرا اثر ہے۔جس پہ میں نے تھوڑی سی ابتدائ تحقیق کی۔اور حیران کن اور دلچسپ نتائج سامنے ائے۔
یہ داردی لوگ ہی تھے جنہوں نے شمالی پاکستان میں گندھارا تہذیب کی بنیاد رکھی۔جس کا اثر رسوخ وسطی ایشیا اور جنوب میں پنجاب اور سندھ تک تھا۔اس گندھارا تہذیب نے بدھ مت کے مذہب کو دور افتادہ علاقوں چین ، جاپان اور کوریا میں بدھ مت کو پہنچایا۔اور پھر یہی بدھ مت چین ، جاپان اور کوریا کا ثقافتی ورثہ بن گیا۔
گندھارا تہذیب 1500 قبل مسیح سے لیکر ہزار عیسوی تک اپنے جوبن میں پھیلتی پھولتی رہا۔اس کا مرکز اودھیانا( موجودہ سوات) اور پشاور (پوروشوپورا)کی وادی تھی۔تحقیق کرنے پہ معلوم ہوا کہ Taxila گندھارا تہذیب کا frontier علاقہ تھا۔مرکز نہیں تھا۔جب ہند برطانیہ میں ریل کی پٹریاں بچھائی جارہی تھیں تو حادثاتی طور پہ کھدائی کے دوران ٹیکسلا کے آثار قدیمہ نظر عام ہوگئے۔جس کو جان مارشل(ڈائیرکٹر جنرل آف ارکیالوجی سروے آف انڈیا) نے دنیا کو متعارف کروایا۔ابھی بھی یہ تہذیب tip of iceberg ہے۔سوات کی وادی میں بلاشبہ بہت کچھ نظروں سے اوجھل ہے۔جس پہ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔گندھارا تہذیب نےنہ صرف بدھ مت کو دنیا میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ہندو دھرم میں گندھارا کی تہذیب اور داردوں کا بہت اہم کردار ہے۔جس کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پہ سراہا نہیں گیا۔
Gandhara grave culture
اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں مزید ماضی میں جانا ہوگا
1200 قبل مسیح سے لیکر 800 قبل مسیح تک اس کا دور تھا۔اس کا مرکز وادی سوات تھا۔مزید تحقیق کرنے پہ معلوم ہوا اس کلچر کا احاطہ پورے کا پورا داردستان تھا۔اس کلچر کی اہم خصوصیت قدیم قبروں کی دریافت تھی۔جس میں terracotta figurines اور
Pottery (برتنے کی اشیا)
کو زمین درگور کرنے کا یکساں pattern تھا۔اور تو اور گھوڑوں کی قبریں بھی دریافت ہوئیں۔اور قبروں میں گھوڑوں کی لکڑی کی بنی ہوئ مورتیاں پائ گئیں۔جس سے اس hypothesis کو تقویت ملتی ہے کہ ہند آریا گھوڑوں کی مدد سے برصغیر میں داخل ہوئے۔اور گھوڑے ہند آریاوں کیلئے کتنے مقدس تھے۔یہ ہند آریا migration کے مفروضے کو prove کرنے میں ایک break through تھا۔ابھی بھی آپ کو ہزارہ ڈویژن ، سوات ، دیر ، چترال اور دیگر داردستان میں اسی طرح کی قدیم قبریں اور عمارتیں ملیں گی جن پہ گھوڑے نما تصویریں کنندہ ہیں۔ کیلاش لوگوں کی عبادت گاہوں میں گھوڑے کے مجسمے اور مورتیاں بھی ملیں گے۔
ہند آریاوں نے داردستان کے علاقے میں اچھا خاصا وقت بیتانے کے بعد میدانی علاقوں(یعنی پنجاب) کا رخ کیا اور ویدوں کی تہذیب کی بنیاد رکھی۔یہ دور1500 قبل مسیح سے 900 قبل مسیح کا تھا۔اکثر محقق اس بات پہ متفق ہیں کہ رگ وید ویدوں نے پنجاب کے علاقے میں لکھی۔
رگ وید میں داردوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن گندھارا اور تور واش قبائل کے نام سے۔کیا یہ تور واشا موجودہ توروالی ہیں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔رگ وید میں پانچ عظیم قبائل(پنچا جانا)ذکر کیا گیا ہے۔جن میں تور واشا اہمیت کے حامل ہیں۔
منڈالا 5 اور 6 میں تور واشا کا ذکر کیا ہے۔اندرا نے تور واشا اور یادووں کو دریاوں کے پانی میں ڈوبنے سے بچایا جب وہ میدانوں علاقوں میں آرہے تھے تو راستے میں ایک بہت بڑا دریا تھا۔
ویدوں کے عقائد کا ہندومت سے موازنہ کیا جائے تو معلوم پڑے گا۔وید کے عقائد ہندومت سے مختلف تھے۔ان کے عقیدے میں indra god کی اہمیت تھی۔جیسے موجودہ کیلاش قبائل میں indr جس کو وہ قوس قزح سے منسوب کرتے ہیں۔اب بھی داردستان کے علاقوں میں قوس قزح کو پریوں کی خوشی سے منسوب کیا جاتا ہے۔بعد میں ہند آریاوں کا واسطہ وادی سندھ کے میدانی علاقوں کے باسیوں سے پڑا۔جو ہڑپہ اور موئن جو داڑو کے باسی تھے۔جو شکل اور کلچر کے اعتبار سے ہند آریاوں سے مختلف تھے۔یہ دراوڑی اور منڈا قبائل تھے۔جن کو رگ وید میں داسا کہا گیا ہے۔پھر ہند آریاوں نے ان قبائل کیساتھ میل ملاپ کیا تو ہندو مت کی داغ بیل دی گئی۔اور ہند آریاوں کے مذہبی عقائد میں تبدیلی انا شروع ہوگئی۔اور ان دراوڑی اور منڈا قبائل کے دیوتاوں کو اپنا لیا گیا۔اور اندرا ، مہادیو دیوتاوں کی جگہ دوسرے دیوتاوں نے جگہ لے لی۔یہ پہلا کلچرل ایکسچینج تھا۔اس طرح ہندومت کا جنم ہوا۔اور وید تہذیب کے آخری ادوار میں ہند آریا پنجاب اور سندھ وادی چھوڑ کر گنگا جمنا کی سرزمین کی طرف کوچ گئے۔وید تہذیب کے آخری دور میں مشرقی ہند آریاوں (گنگا جمنا کے ہند اریا)جو نیے عقائد اور رسم و رواج کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے تھے۔انہوں نے سندھ وادی اور داردستان کے ہند آریاوں کو دھتکارنا شروع کردیا۔ان کو ملیچھ( پلیت)، باہیکا/واہیکا( غیر ملکی اور گنوار) اور پساچا (ادم خور/گوشت خور)بالخصوص داردیوں کو خطاب دیا۔لیکن ساتھ ساتھ ان سب قبائل کو آریا تو قرار دیا لیکن باغی اور گنوار آریا قرار دیا۔اپنے بگڑے ہوئے بھائ جو گنگا جمنا کے ہند آریاوں کی بجائے گوشت بھی کھاتے ہیں اور پرانے عقائد پہ قائم ہیں۔
اب مہابھارتا کی بات کرلیتے ہیں۔
مہابھارتا اصل میں بھارتا کتھا سے متاثر ہوکر مرتب کی گئی۔جو اصل میں پساچا پراکرت میں پڑھی گئی۔پساچا پراکرت اس دور میں متروک ہوگئی تھی۔مہابھارتا رگ وید کی طرح لکھی نئی گئی تھی۔بلکہ سینہ بہ سینہ گائ جاتی تھی۔جس کو بعد میں لکھ کر محفوظ کیا گیا۔یہ دنیا کی سب سے طویل شاعری تھی جس کو داستان گوئ کے طور پہ گایا جاتا تھا۔سب سے دلچسپ بات جو ہندو تاریخ دان چھپاتے ہیں۔اس کو پہلی بار ٹیکسلا گندھارا میں راجا جنم جایا کے دربار میں داستان گو ویشام پایانا نے گایا۔ایک اور دلچسپ بات۔مہابھارتا کی پوری داستان ایک کردار مہارانی گندھاری کے گرد گھومتی ہے جس کا تعلق گندھارا قبیلے سے تھا اور وہ سو کورووں کی ماں تھا۔کورووں اور پانڈووں کی جنگوں کا مہابھارتا میں ذکر داستان گوئ انداز میں کیا گیا ہے۔
اس ضمن میں اگر ہم پانینی اور چناکیا کا ذکر نہ کریں۔تو یہ مضمون نامکمل رہ جائے گا۔
ہند آریائ قبائل جب میدانی علاقوں میں آئے تو منتشر ہونا شروع ہوگئے۔مختلف شہر آباد کرنا شروع کئے۔تو proto indo Aryan زبان کئی لہجوں میں بٹ گئی۔جو آہستہ آہستہ نئی زبانوں کی شکل اختیار کرنے لگی۔اس طرح پراکرتوں کا جنم ہوا۔ان پراکرتوں کی گرائمر کو مرتب اور standardize کرنے کا کارنامہ ایک مشہور داردی اسکالر پانینی نے سرانجام دیا۔جو گندھارا کی سر زمین میں چھٹی اور چوتھی قبل مسیح میں پیدا ہوا۔کچھ تاریخ دان کہتا ہیں کہ پانینی سوات (ادھیانا) میں پیدا ہوا۔اور کچھ تاریخ دان اس کو صوابی کا کہتے ہیں۔پانینی کا کام مشہور کتاب اشتا دھیائ تھی۔اس کتاب میں بھی اس وقت کے برصغیر کی جغرافیہ کا ذکر کیا گیا۔جس میں دریائے سندھ کو داردی سندھو کہا گیا۔
اسی دور کے اس پاس دنیا کا پہلا پولیٹیکل سائنسدان چناکیہ بھی گندھارا داردستان کی سرزمین میں پیدا ہوا۔اس کی شاہکار کتاب ارتھا شاسترا اب بھی بھارت میں پولیٹیکل سائنس کا ریفرنس مانی جاتی ہے۔بھارت کی خارجہ پالیسی میں اسی کتاب کو بطور ریفرنس مانا جاتا ہے۔چناکیہ چندرا گپتا موریہ کا پولیٹیکل ایڈوائزر تھا۔اور پورے برصغیر میں چندرا گپتا کی سلطنت قائم کرنے میں اہم کردار چناکیہ کا ہی تھا
1000 ویں عیسوی کے دور میں وسطی ایشیا سے مسلم حملہ آوروں کی آمد سے گندھارا تہذیب کا خاتمہ ہوا۔
گندھارا تہذیب دنیا کی واحد تہذیب جہاں تاریخ میں پہلی مرتبہ مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان کلچرل ایکسچینج ہوئے۔
2016 میں بی بی سی میں ایک ڈاکومینٹری نشر کی گئی جس میں بتایا گیا کہ مشرق اور مغرب میں کلچرل ایکسچینج مارکو پولو کی چین یاترا سے 1500 پہلے ہوا تھا۔لیکن انہوں نے گندھارا تہذیب کی یونیورسٹیوں کا ذکر نہیں کیا جہاں یونانی ، چینی اور برصغیر کے باسی اکٹھے تعلیم حاصل کرتے تھے۔
حقیقت میں مشرق اور مغرب کا پہلی بار کلچرل ایکسچینج ادھیانا اور ٹیکسلا کے multi cultural شہروں اور یونیورسٹیوں میں ہوا۔
اختتام کرنے سے پہلے کشمیر اور سندھ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔سن
1148 اور 1149 عیسوی میں کشمیر میں مشہور اسکالر کلہانا نے سنسکرت میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا “راجاتارنگانی”۔
اس کتاب میں کشمیر کی سلطنت، کشمیر کے راجاوں اور کشمیر ریاست کے اس پاس کی ریاستوں کا ذکر ایک منفرد اور بہترین انداز میں کیا گیا ہے۔اس کتاب میں سندھ کی رائے اور برہمن سلطنتوں کے راجاوں کا تعلق کشمیر سے بتایا گیا ہے۔
اس دور میں سندھ اور کشمیر کی سرحدیں آپس میں ملتی تھیں۔سندھ میں عربوں کی آمد کے بعد چچ نامہ کتاب لکھی۔جس کا مصنف فارس کا لکھاری تھا۔یہ کتاب 13 ویں صدی میں فارسی میں لکھی گئی۔اس میں بھی سندھ کے راجاوں کا تعلق کشمیر سے ہی بتایا گیا۔راجا داہر بھی اصل میں کشمیری برہمن خاندان تھا۔گویا راجہ داہر کی origin بھی داردی تھی۔چچ نامہ کے مطابق عربوں کے سندھ میں فتح کے دوران اکثریتی مذہب بدھ مت ہی تھا۔اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس دور میں کشمیر ، گندھارا ، پنجاب اور سندھ کے درمیان گہرے ثقافتی تعلقات تھے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر داردستان سے باہر قدیم سٹوپا ہیں تو وہ سندھ کی دھرتی میں ہی ہیں۔موئن جو داڑو کا قدیم شہر بھی بدھ مت کے سٹوپا کے نیچےجان مارشل کی رہنمائ میں کھدائی کرنے کے بعد دریافت کیا گیا۔
کشمیر کی مشہور شاعرہ حبہ خاتون کا ذکر بھی ضروری ہے۔وہ کشمیری زبان کی پہلی رومانوی شاعرہ تھی۔اس کو یوسف شاہ چک سے عشق ہوگیا ۔اور اس نے اس کے عشق میں جو رومانوی شاعری کی وہ آج بھی کشمیری زبان کا اثاثہ ہے۔یوسف شاہ چک کے ابا و اجداد کا تعلق بھی گلگت بلتستان سے تھا۔جنہوں نے سو سال کشمیر پہ حکمرانی کی۔
اختتامیہ
داردستان اور گندھارا کے برصغیر کے میدانی علاقوں کے ثقافتی ورثے پہ گہرے اثرات ہیں۔یہاں تک کے پنجاب اور سندھ کی زبانوں کے ارتقا ، صوتیات اور گرائمر پہ بھی داردی زبانوں کے گہرے اثرات ہیں۔جن کے بارے میں الگ مضمون پہ ذکر کروں گا۔
داردستان اور برصغیر کے میدانی علاقوں کے ثقافتی اثر و رسوخ پہ مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے
Ref
Ram Swarup Joon: History of the Jats
Witzel, Michael (1999). “Substrate Languages in Old Indo-Aryan: (Rigvedic, Middle and Late Vedic)
Witzel, Michael (2001). “Autochthonous Aryans?: The Evidence from Old Indian and Iranian Text
S. Agrawala: India as Known to Panini
Stein, Aurel (1900). Kalhana’s Rajatarangini vol 1-3
Kachru, Braj Behari (1981). Kashmiri literature
Fatehnama sindh/chach nama Dr.Nabi Baksh Baloch
History of Northern Areas of Pakistan (Historical studies) by Prof.Ahmad Hassan Dani
Zahir, Muhammad, (2017). “The Geographical Distribution of Gandhara Grave Culture or Protohistoric Cemeteries in Northern and North-Western South Asia”