تکثریت کا مکالمہ

شمالی پاکستان کی مختلف نسلی اور لسانی قومتیوں اور مذہبی گروہ کے بیچ تکثریت کا فروغ

0 868

تکثریت کا مکالمہ

Negotiating Pluralism

بنی نوع انسان کے لیے جسمانی، مذہبی، نسلی، ثقافتی اور لسانی تنوع ہمیشہ سے ایک ابدی حقیقت رہا ہے جو مخلتف انسانوں کے لیے ایک موزون ماحول پیدا کرتا ہے جہاں وہ کسی خاص ثقافت کو اپناتے ہوئے  کسی خاص سماجی معاہدے کے اندر رہ سکتے ہیں۔ ۔

عظیم قوموں کی عظیم نشانی یہ ہے کہ وہ سخت حالات سے روگردانی نہیں کرتے بلکہ علمی اور عملی طور پر ان حالات سے نبرد ازما ہوتے ہیں اور سماج میں تبدیلی لاتے ہیں۔

جدید سماج کو درپیش چیلینجز میں ایک چیلینج” تکثریت “   (pluralism (کا حصول ہے جس سے مراد، ” سماج کی وہ  خاصیت ہے جہاں منتوع سماجی گروہ کے لوگ اپنی روایتی ثقافتوں اور مفادات کا فروغ اور تحفظ ایک مشترک تہذیب کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں“۔

تکثریت پر جدید بحث کے  خط وخال امریکا میں  اُنسویں صدی کے اواخر میں  طے ہونا شروع ہوئے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جہاں امریکی سماج کا سامنا صنعت اور شہری ابادکاری سے ہوا اور جب امریکا میں مختلف النّوع ثقافتی، نسلی اور مذہبی پس منظر کے لوگ آکر بسنے لگے۔ ان تبدیلیوں نے وہاں پیچیدہ مسائل جنم دیں اور امریکا کی بڑھتی ہوئی معاشرت میں تنوع اگیا۔ ویلیم جیمز (William James) نے اسے تکثریت (pluralism) کہا۔ انہوں نے اسے فلسفیاتی اور نفسیاتی تجزیے کا موقع گردانا تاکہ انسانی زندگی کے معانی کو وسعت دی جاسکے اور ایک متنوع سماج میں پیچیدہ راہوں کی تلاش ہوں جو اس وقت تک معلوم  بھی نہیں تھیں۔

جیمز کے بعد سماجی سائنسدانوں اور مفکروں نے محسوس کیا کہ جدید تکثیری دنیا معاشرے، حکومت، معیشت، مذہبی خیالات اور خود انسانوں میں نمایاں تبدیلیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ پس بیسویں صدی میں بہت سارے سماجوں میں بڑی تبدیلیاں اگئیں۔ اگرچہ تنوع ایک سماجی قوت ہے مگر اس میں خدشے  بھی پوشیدہ ہیں اگر اسے درست طورپرسمجھا نہ گیا۔ موجودہ دور میں ”برداشت“  (tolerance) پر بہت زور دیا جاتاہے مگر اس پہلو سے پہلوتہی کی جاتی ہے کہ اس کی درست سماجی، سیاسی اور معاشی مفہوم کیا ہے۔  اس کی وجہ سے اس کے برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کوئی کسی کو  اس کے خلاف نفرت، تعصب اور ناپسندیدگی رکھتے ہوئے بھی  ”برداشت“ کرسکتا ہے ۔ تاہم برداشت کی درست اور بہتر سمجھ ہر قسم کے تعصب کو دور کرتی ہے اور ایک تکثیری اور صحت مند سماج کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔

پاکستان کے شمالی خطے میں چترال، گلگت بلتستان، آباسین کوہستان، سوات اور دیر ثقافتی، لسانی، مذہبی اور نسلی طور پر متنوع ہیں۔ تاریخی طور پر یہ خطہ ایسی وادیوں پر مشتمل تھا جہاں سماج اور انصرام (governance)  کے مقامی/آبائی  ڈھانچے موجود تھے۔ یہ آبائی/مقامی نظام ہی ہوتے ہیں جن کی مدد سے لوگ تکثریت کو قائم رکھتے ہیں۔ البتہ ان علاقوں میں ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جہاں اکثریت (majority)نے کسی اقلیت پر اپنی شناخت بہ زور بازو ٹھونس دی ہے۔ مثال کے طور پر سوات اور دیر کے داردی لوگوں پر سولہویں صدی میں یلغار کی گئی جس کی وجہ سے ان کو انکی زمینوں نے نکال دیا گیا اور ان کی اپنی شناخت کو اکثریتی ثقافت کی شناخت میں ضم کیا گیا یا پھر اپنی طرف سے کوئی شناخت  ان پر ٹھونس دی گئی۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی مختللف وادیوں میں موسیقی اور لوہاری کسب سے منسلک ڈوما برادری کو بتدریج کمتر جانا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس برادری کو ان وادیوں کی بڑی ثقافتوں میں ضم کرکے ان کی شناخت ختم کر دی گئی۔

دوسروں کی شناخت اور سماج مٹانے کی اس روش کے  زیر اثر  بیسویں صدی کے  اخری نصف  میں گلگت بلتستان میں فرقہ ورانہ کشیدگی ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھری۔ اس کی وجہ سے یہاں فرقہ ورانہ تشدد تین دہائیوں تک جاری رہا۔  نتیجتاً یہاں  شناخت  کی تشکیل میں تبدیلی ائی اور  اسکی بنیاد ثقافت کی بجائے مذہبی فرقہ  اور رجحان ٹھہرا۔ اب بھی گلگت بلتستان میں فرقہ ورانہ جذبات سماج کے تہیوں میں  پوشیدہ طور پر فعال ہیں۔ اب جبکہ موجودہ دور کے بیانیوں میں مختلف قومتیوں کی تاریخی یاداشتیں شناخت اور سیاست کے بیانیوں کو پراون چھڑا رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تکثریت پر بحث مباحثہ ہو اور اسکو سمجھا جائے۔

گلگت بلتستان، چترال، آباسین کوہستان، سوات اور دیر کے ثقافتی، لسانی اور مذہبی طورمتنوع قومتیوں میں مختلف النّوع شناختوں کی قمیت پر ا یک رنگی شناخت کے گرد سیاسی بیانیہ اس خطے کے سماج کے استحکام اور امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔  شمالی پاکستان کے اس خطے میں توڑ پھوڑ کی ایک اور وجہ مقامی و روایتی نظاموں اور روایتی عمرانی معاہدوں (social contracts)  کو توڑنا ہے جن کو یہاں صدیوں سے روایتی طورباہمی سماجی تعلق کے لیے فروغ ملا تھا۔ جدید دور میں جدید ریاستوں کے ادارے متنوع قومتیوں میں  ملاپ  کردار کے طور پر داخل ہوئے۔ مگر جدید ریاست کا یہ یک رنگی کا  نظریہ اور جذبہ مقامی قومتیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کیوں کہ روایتی سے جدید کی طرف  تکثریت سمیت بتدریج  انتقال کی بجائے ان قومتیوں کو اپنے روایات سے دور کیا گیا اور یوں ان کو ایک غیر یقینی صورت حال  میں دھکیل کر شناختی بحران سے دو چار کیا گیا۔   اس کی وجہ سے سماج اور ریاست میں، ثقافت اور مذہب میں اور مخلتف ثقافتی، لسانی اور مذہبی گروہ کے درمیان ہم اہنگی کو خطرہ لاحق ہوا۔

تنّوع کے منفی خطرات سے نمٹنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ تکثریت پر گفت و شنید ہو اور اس کا اصل مفہوم کوسمجھا جائے۔ اس سے سارے شمالی پاکستان میں بسنے والی قومیتیں استفادہ حاصل کرسکتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو سمجھ کر اور آپنا کر باہم ہم اہنگی و امن کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان منتوع قومتیوں کے لیے ایسے اجتماعی مواقع  پیدا کیے جائے   جہاں وہ ایک دوسرے سے مسلسل مباحثہ اور مذاکرے کرسکیں، ان میں سماجی و ثقافتی رابطے قائم ہوں  اور  وہ مشترک مسائل سے نمٹنے کے لیے مقامی طور پر اپنے بیانیے تشکیل دے سکیں۔ اس سے متنوع مقاصد اور مفادات کو ایک مشترک کُل  ملے گا جہاں تنوع کو نہ صرف تسلیم کیا جائے گا بلکہ اس کی قدراور منزلت بھی  بڑھےگی۔

Print Friendly, PDF & Email
تبصرے
Loading...